اسٹیبلشم ٹ ے میرے خطوط پر غور ہ کیا تو عید کے بعد تحریک چلے گی‘ با ی پی ٹی آئی۔
اب تو ت گ آکر قیدی ے بھی شاید خط لکھ ے سے توبہ کرلی ہے کیو کہ ا کے ایک خط کابھی جواب کہیں سے ہیں آیا۔ آخر کب تک کوئی بیرک کا دروازہ تکتا رہے۔ اسی لئے اب گزشتہ روز ا ہوں ے باقاعدہ ترلے کرتے ہوئے اسٹیبلشم ٹ سے کہا ہے کہ اور کوئی تو لفٹ ہیں کرارہا کم از کم وہی اب ا کے خطوط کا لفافہ چاک کرے اور ا پر غور کرے۔ کت ی عجیب بات ہے کہ خط جسے بھیجا جا رہا ہے‘ اس سے قبل ہی میڈیا میں افشا کر دیا جاتا ہے تو پھر اسے خط کو کہے گا۔ خط کا مطلب تو رازداری سے باہمی گفت و ش ید ہوتا ہے۔ اسی لئے کسی کا خط پڑھ ے سے م ع کیا گیا ہے۔ اسے خیا ت یا چوری کہتے ہیں۔ اب جو خط ویسے ہی سب کے سام ے کھلا رکھا گیا ہو تو اس کا جواب کو دیتا ہے اور دے بھی تو کیا دے۔ یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف ے کہہ دیا کہ سیاسی معاملات پر کوئی خط آیا تو سیدھا پی ایم ہاﺅس بھیجوں گا۔ یہ ج کا کام ہے وہی کریں۔ تو ج اب یوں چاروں طرف سے ا کار کے بعد اب اقرار کی بات کو کرے۔ جب اپ ی بات م وا ے کیلئے ایک طرف م تیں ترلے ہو رہے ہوں اور دوسری طرف دھمکی آمیز بیا بھی جگمگا رہا ہو تو پھر جواب کو دے۔ آخر وہ بھی تو سراپا موم یا پتھر ب ے کے جواب میں شیشہ ہیں فولاد ہیں ہم کا جلوہ دکھا ے کی باتیں کریں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سلسلہ ج با ی فی الحال شروع ہیں ہو سکا۔ تحریک ا صاف کے با ی ے بالآخر زچ ہو کر کہہ دیا کہ اگر کسی ے میری ہ س ی تو رمضا کے بعد وہ تحریک چلائیں گے۔ گویا ایک ڈیڑھ ماہ بعد پھر پی ٹی آئی والے دھر ا سیاست پر اتر آئیں گے۔ اب آگے کیا ہوتا ہے‘ یہ تو اللہ بہتر جا تا ہے۔ مگر افراتفری کی سیاست چھوڑ ے کا پی ٹی آئی والوں کا کوئی ارادہ ہیں اور حکومت بھی ٹس سے مس ہیں ہو رہی اور؛
ادھر آستمگر ہ ر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیںن
والی کیفیت سے لوگ اب لطف اٹھا ے لگے ہیں۔ن
امریکہ سے بھاری مقدار میں بموں کی ئی کھیپ اسرائیل پہ چ گئی۔ن
یہ کام وہ شخص کر رہا ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں تھکتا کہ میں د یا بھر میں ج گیں ب د کراکے ام قائم کروں گا۔ کیا یہ ہوتے ہیں ام قائم کر ے والوں کے لچھ ۔ جو ملک ہ وما کی دم ب کر مشرق وسطیٰ میں آگ لگاتا پھر رہا ہے‘ اسکی دم پر مزید تیل ڈال کر مزید آگ پھیلا ے میں مدد کر رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں بغل میں چھری م ہ میں رام رام۔ بھارت کے حوالے سے بھی امریکہ کی یہی پالیسی ہے۔ یہ جا تے ہوئے بھی کہ بھارت ج وبی ایشیاءمیں ام کا سب سے بڑا دشم ہے۔ دھڑا دھڑ اسکے ساتھ بڑے پیما ے پر خطر اک تباہی پھیلا ے والے اسلحہ کی فروخت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹرمپ کے ام و آشتی کے دعوے سب جھوٹ ہیں۔ اصل میں وہ خود سب سے بڑی تباہی اور بربادی پھیلا ے والوں میں شامل ہیں۔ کوئی ما ے یا ہ ما ے اس کی مرضی۔ اب یہ جو اسرائیل کو ہزاروں بم امریکہ سے ملے ہیں‘ کیا یہ پھول ب کر فلسطی یوں پر برس ے کیلئے ب ے ہیں کہ ا کی برسات سے ام کے پھول کھلیں گے۔ اسی طرح اربوں روپے کے اسلحہ کے معاہدے بھارت سے اسی لئے کئے ہیں تاکہ کشمیر کی گل ر گ وادی میں مزید لالہ و گل پھوٹیں اور وہاں کی سرسبز وادیوں پر سرخ ر گ کی بہار چھا جائے۔ ویسے بھی امریکی پرچم میں سرخ دھاریاں اسی لال ر گ کی علامت ہیں جس کی وجہ سے د یا بھر میں امریکہ سرخ لہو کی برسات برسا کر ام قائم کر ا چاہتا ہے۔ بھلا ببول پر بھی گلاب اگلتے ہیں۔ آگ میں پھول کھلتے ہیں‘ یہ بات ٹرمپ کو کو سمجھائے۔ جو سمجھ ے سمجھا ے کے دور سے گزر چکے ہیں‘ یہ ا کے اٹھ ے یا اٹھا ے کا دور چل رہا ہے جو سٹھیاپا بھی کہلاتا ہے۔ن
٭...
.٭....٭خیبر پی کے حکومت دو جرگے افغا ستا بھیج ے سے پہلے ام کی بحالی کیلئے کرم ایج سی کو س بھالے۔
ج سے اپ ا صوبہ ہیں س بھالا جاتا‘ جو حکومت کرم ایج سی میں ابھی تک قا و کی رٹ قائم کر ے میں مکمل اکام ظر آتی ہے‘ وزیرستا کی تو بات چھوڑیں‘ وہاں ا میں ہمت ہیں قدم رکھ ے کی۔ اسے صرف قشے میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ب وں تا ڈی آئی خا جو ٹی ٹی پی کو لگام ہ ڈال سکے‘ وہ بھلا ٹی ٹی پی کی ماں تحریک طالبا کو کیا خاک سمجھا پائیں گے۔ کیا یہ جرگہ یا جرگے طالبا سے کہیں گے کہ ج اب ہمارے صوبے میں مداخلت ہ کی جائے‘ وہاں دہشت گردی اور تخریب کاری ب د کی جائے‘ باقی ملک کی ہیں ہم اپ ی جا بخشی کی درخواست لے کر آئے ہیں۔ اور طالبا ا کی درخواست قبول کرلیں گے۔ یہ جرگہ کے ام پر سیر سپاٹے کیلئے اپ ی آ یاں جا یاں دکھا ے والوں کی بڑی بھول ہے کہ ایسا ہوگا۔ مزہ تو تب ہے کہ پہلے طالبا حکومت کو بتا دیا جائے کہ ہم پرام دوست ہی ہیں‘ بھائی ب کر رہ ا چاہتے ہیں۔ اس لئے پاکستا میں درا دازی ب د کی جائے تاکہ خیبر پختو خوا میں تخریب کاری ب د ہو۔ کیا ایسا کر ے یا کہ ے کی جرات ہے۔ خیبر پی کے سے جا ے والے جرگہ ممبرا میں اگر ہیں تو پھر کیا فائدہ اس بے کار کی مشق کا۔ ویسے بھی ایسا کہاں ہوتا ہے کہ ملکی سطح کی بجائے صوبائی سطح پر ڈائیلاگ کی کوشش کی جائے۔ کیا یہ مرکز گریز پالیسی کا اثر دوسرے صوبوں پر بھی ہیں پڑے گا۔ کسی مسئلے کو حل کر ے کے ام پر ت ئے مسائل پیدا کر ا کہاں کی دا شم دی ہے۔ ویسے بھی صرف حکومتی سطح کے وفود کو ہی دوسرے ملک میں پروٹوکول ملتا ہے۔ اس میں بے شک جرگے کے اہم ممبرا کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ کچھ کر ے کے قابل ہوں تو۔ ور ہن
آ ا جا ا لگا رہتا ہے
جرگہ جائے گا‘ تو وفد آئے گا
چلیں دل کے خوش رکھ ے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ کیا صوبائی حکومت ہیں جا تی کہ خارجہ امور اس کے دائرے میں ہیں آتے۔ن
٭....٭....٭
دہلی کی گجر برادری میں ایک روپے میں شادی کی تحریک پھیل گئی۔ن
جس معاشرے میں سماج میں ذات پات‘ او چ یچ کا چل عام ہو‘ وہاں اگر کوئی ایسا اچھا کام کرے تو اس کو سرہا ا چاہیے۔ یہ جہیز‘ شادی بیاہ کی رسومات پر اخراجات کی وجہ سے جو پاکستا اور بھارت میں لاکھوں بچیاں ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں‘ دوسری طرف سرمایہ دار لوگ پیسے والے اربوں روپے شادی پر لگاتے ہیں۔ اسی سماج میں ایک کھرب پتی اڈوا ی اپ ے بچوں کی شادی پر ایک ارب روپے غریبوں میں با ٹ کر ا سا یت کی، رحمدلی کی اعلیٰ مثال بھی ب جاتا ہے۔ فی الحال پاکستا میں کروڑوں روپے شادی پر لگا ے والوں میں ات ا حوصلہ ہیں ہوا کہ وہ ا کروڑوں میں سے ایک آدھ کروڑ غریبوں کی بچیوں کی شادی کیلئے دے دیں۔ البتہ حکومت پ جاب کے دھی را ی پروگرام سے امید کی ایک کر جاگی ہے کہ حکومت پ جاب ایسے غریبوں کی شادی میں مالی امداد دے رہی ہے جو بیٹیوں کے ہاتھ پیلے ہیں کر پائے۔ شادی میں دلہ کو قد رقم اور ضروری گھریلو ساما دیا جا رہا ہے۔ کئی مخیر ادارے بھی اپ ی طرف سے ایسا کرتے ہیں مگر وہ آٹے میں مک کے برابر ہے۔ پ جاب حکومت دھی را ی پروگرام احس طریقے سے چلا کر لاکھوں گھر آباد کر سکتی ہے‘ دعائیں لے سکتی ہے۔ مگر جو اعلیٰ مثال بھارت کی فریدآباد دہلی کی گجر برادری ے قائم کی ہے وہ لائق تحسی ہے۔ ایک روپیہ وہ بھی علامتی شگو کےطور پر دیکر جہیز کی لع ت سے محفوظ رہتے ہیں اور دولہا والے بھی خوش دلی سے یہ رسم بھاتے ہیں اور دلہ لے جاتے ہیں اگر رسم و رواج اور ذات پات کی او چ یچ میں ب ے معاشرے میں ایسا ہو سکتا ہے تو کیا ہم ہیں کر سکتے۔