خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ بات چیت کے لیے دو وفود بھیجنے کے فیصلے نے ایک اہم قومی اور آئینی بحث کو جنم دیا ہے۔ مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا، بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق، یہ وفود افغانستان میں طالبان قیادت سے مذاکرات کریں گے۔ پہلا وفد ماحول سازگار بنانے اور سفارتی معاملات کو دیکھنے کے لیے مقرر ہوگا جبکہ دوسرا وفد مختلف اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ہوگا۔ بیرسٹر سیف کو ان مذاکرات کے لیے فوکل پرسن نامزد کیا گیا ہے، اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت اس عمل میں وفاقی حکومت سے رابطے میں رہے گی۔تاہم، ترجمان دفتر خارجہ، شفقت علی خان نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ خارجہ امور وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور صوبوں کو براہِ راست بین الاقوامی مذاکرات کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ آئین میں کنکرنٹ لسٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں صوبے کسی دوسرے ملک سے تعاون کر سکتے ہیں، مگر خارجہ پالیسی کے معاملات میں صرف وفاقی حکومت ہی کسی دوسرے ملک سے مذاکرات یا معاہدے کر سکتی ہے۔لہٰذا، خیبر پختونخوا حکومت کا افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا فیصلہ آئینی اور قانونی تقاضوں کے تناظر میں سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ اس معاملے میں مرکز اور صوبے کے درمیان ہم آہنگی اور آئینی حدود کی پاسداری نہایت اہمیت کی حامل ہے تاکہ قومی خارجہ پالیسی میں یکسوئی برقرار رہے۔خیبر پختون خواہ حکومت افغانستان کے ساتھ خارجہ امور پر مذاکرات کے لیے مْصر بلکہ بضد رہتی ہے تو اسے صوبے کی مرکز سے بغاوت کے طور پر ہی دیکھا جائے گا۔اس سے صوبے اور مرکز کے مابین پائی جانے والی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا جو کسی صورت بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔خیبر پختونخوا حکومت جن معاملات پر افغانستان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے وہ سارا کچھ مرکز کے توسط سے کرسکتی ہے۔ یہی آئینی اور قانونی طریقہ کار ہے۔