"زی جنریشن" انسانوں کی آخری نسل؟۔

میرا تعلق اس نسل سے ہے جسے سوشل میڈیا پر چھائے نوجوان حقارت سے ’’بے بی بومرز‘‘ پکارتے ہیں۔ یہ نسل ان افراد پر مشتمل ہے جو 1946ء سے لے کر 1964ء کے درمیانی سالوں میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ نسل معدوم ہورہی ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی نوکری وغیرہ کرتا ہو۔ صحافت کو پیشہ بنانے کی وجہ سے میں بدنصیب مگر اس وقت تک کام کرنے کو مجبور ہوں جب تک ہاتھ میں جنبش آنکھوں میں دم کے ساتھ میسر ہے۔
بہرحال میری نسل سے وہ نسل شدید نفرت کرتی بتائی جارہی ہے جسے Gen Zپکارتے ہیں۔اس نسل کے نمائندہ نوجوان 1996ء سے 2010ء کے درمیانی برسوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ موبائل فون اور اس میں نصب سوشل میڈیا کے دن بدن بڑھتے پلیٹ فارم اس نسل کے نوجوانوں کے لئے حیران کن نہیں۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ آج سے تقریباََ 25سال قبل تک سرکار کی جانب سے فراہم کردہ لائنوں سے وابستہ ٹیلی فونوں کے ذریعے ہی دوستوں اور عزیزوں سے رابطہ ممکن تھا۔ جن لوگوں کے عزیز واقارب غیر ملکوں میں مقیم ہوتے انہیں ٹیلی فون پر رابطے کے لئے ’’ٹرنک کال‘‘ بک کروانا پڑتی۔ یہ عموماََ 3منٹ تک محدود ہوتی اور اس کا خرچ متوسط طبقے کی اکثریت کو کافی مہنگا محسوس ہوتا تھا۔
میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ 1996ء  سے 2010ء کے درمیانی برسوں کے دوران پیدا ہوئے بچوں کو Gen Zکیوں پکارا جاتا ہے۔ Genانگریزی کی جنریشن کا مخفف ہوگا مگر اس کے بعد ’’زی‘‘کیوں لگایا گیا ہے۔ انگریزی زبان ’’اے‘‘ سے شروع ہوکر ’’زی‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ 1996ء اور 2010ء کے درمیانی برسوں کے دوران پیدا ہوئے بچوں کی نسل کو جب ’’زی‘‘ کہا جاتا ہے تو میرا جھکی ذہن اکثر گھبراجاتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ یہ نسل خود کو کہیں انسانوں کی آخری نسل تو نہیں سمجھ رہی۔ اگر واقعتا ایسا ہی سمجھ رہی ہے تو شاید غلط بھی نہیں۔ میری نسل کو بتایا گیا تھا کہ مختلف ممالک کے ہاتھ ایٹم بم آجانے کے بعد دنیا میں جنگوں کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ایٹمی اعتبار سے توانا تر قوتیں خوف کھاتی ہیں کہ اگر انہیں یا ان کے دشمن یا اتحادیوں کو ایٹم بم استعمال کرنا پڑگیا تو شاید ساری دنیا ہی تابکاری اثرات کی وجہ سے تباہ ہوجائے گی۔
ایٹم بم بن جانے کے باوجود جنگیں مگر رکی نہیں۔ ہمیں جھانسہ دیا گیا تھا کہ اب ’’ہاٹ‘‘ کی بجائے ’’سرد‘‘ جنگیں ہوں گی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مگر کمیونسٹ بلاک کو تباہ کرنے کے لئے افغانستان میں جو جنگ لڑی وہ ہرگز ’’سرد‘‘ نہیں تھی۔ ’’افغان جہاد‘‘ کے نام سے لڑی اس جنگ کے ہولناک نتائج پاکستان ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے کئی غریب مگر زیادہ آبادی والے مسلم ملکوں میں آج بھی آفت مچائے ہوئے ہیں۔ سوویت یونین نے اپنی بقاء کے لئے ایٹم بم استعمال نہیں کیا۔ امریکہ کی مساوی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اقتصادی وجوہات کی بنا پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کی وجہ سے روس کمیونسٹ بلاک تباہ ہونے کے چند برس بعد مگر سنبھل بھی گیا۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہونے کے علاوہ وہ زرعی اعتبار سے بھی نہایت خوش حال ملک ہے۔ اقتصادی طورپر سنبھلتے ہی امریکہ کے ساتھ ’’سرد جنگ‘‘ کے زمانے میں لوٹ گیا۔ 2022ء کے اپریل میں ’’عظیم تر روس‘‘ کو بطور حقیقت دنیا سے تسلیم کروانے کے لئے یوکرین پر حملہ آور ہوگیا۔امید تھی کہ اس کی افواج یوکرین میں داخل ہونے کے چند ہی ہفتوں بعد اس کے دارالحکومت میں قابض فوج کی صورت داخل ہوجائیں گی۔ امریکہ اور یورپ نے باہم مل کر لیکن یوکرین کو دورِ حاضر کا ’’افغانستان ‘‘بنادیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یوکرین کو ایسا اسلحہ مگر فراہم نہیں کیا جس کے استعمال سے روس ایٹم بم کے استعمال کو مجبور ہوجائے۔ ایٹم بم سے یاد آیا کہ ’’امن یقینی بنانے والے‘‘ ایٹم بم کے اب ’’سمارٹ‘‘ ورژن بھی آچکے ہیں۔فرض کرلیا گیا ہے کہ انہیں دشمن کے لشکر روکنے کے لئے چلادیا جائے تو کامل تباہی میدان جنگ تک ہی محدود رہے گی۔ صدر پوٹن 2022ء سے خبردار کرتے رہے کہ یوکرین موصوف کے ملک کو اگر ’’شکست‘‘ دیتا نظر آیا تو وہ ’’سمارٹ‘‘ نوعیت کا بم چلانے سے گریز نہیں کریں گے۔ روسی صدر کی یہ دھمکی بائیڈن انتظامیہ کو یوکرین کے لئے جدید ترین اور تباہ کن ہتھیار فراہم کرنے سے روکتی رہی۔ اب ’’امن کا پیغام‘‘ لے کر ڈونلڈٹرمپ وائٹ ہائوس لوٹ آیا ہے۔
نو منتخب صدر یوکرین سے ویسے ہی چڑتے ہیں کیونکہ وہاں کی حکومت نے اسے ایسے ’’ثبوت‘‘ مہیا کرنے سے انکار کردیا تھا جو سابق صدر بائیڈن کے فرزند کو مذکورہ ملک میں کرپشن کے ذریعے بے تحاشہ منافع کماتا ہوا دکھاتے۔ امریکی عوام بھی یوکرین کو بھاری بھر کم مالی اور فوجی امداد فراہم کرنے سے اب اکتاچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ’’کسی غیر ملک‘‘ کے تحفظ کے لئے امریکی ڈالر ضائع کرنے کے بجائے انہیں امریکہ کو ’’دوبارہ عظیم‘‘ بنانے کے لئے خرچ کیا جائے۔ عوامی جذبات سے کھیلتے ہوئے ٹرمپ یوکرین سے جلد از جلد جند چھڑانا چاہ رہا ہے۔ روس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے قبل ہی امریکی صدر اور وزیر دفاع نے ایسا’’امن منصوبہ‘‘ برسرعام کردیا ہے جس پر عملدرآمد روسی صدر کی عظیم فتح شمار ہوگی۔ وہ تاریخ میں روس کے پیٹردی گریٹ جیسے شہنشاہوں کی طرح یاد رکھے جائیں گے۔
یوکرین میں جنگ کے جلد از جلد خاتمے کا خواہاں ڈونلڈ ٹرمپ مگر 2023ء سے غزہ پر اسرائیل کی جانب سے برسائی قیامت روکنے کو ہرگز تیار نہیں۔ بچوں کی طرح بضد ہے کہ فلسطینی اپنے آبائی گھرچھوڑ کر غزہ خالی کردیں۔ غزہ جب پہلے سے موجودہ انسانوں سے خالی ہوگیا تو ٹرمپ غزہ میں سمندر کے کنارے ایک نئی اور جدید ترین بستی آباد کرنا چاہے گا۔ سامراج نے زمین پر قبضہ کی خواہش کا ایسی ڈھٹائی سے کبھی اظہار نہیں کیا۔ ہمارے خطے میں برطانوی سامراج تجارت کے نام پر داخل ہوا اور بتدریج ’’ابتری اور خلفشار‘‘ روکنے کے نام پر ان تمام ممالک پر قابض ہوگیا جو ان دنوں جنوبی ایشیاء کا حصہ بتائے جاتے ہیں۔ سامراج نے ہمارے ہاں جنگلات صاف کرنے کے بعد نہری نظام کے ذریعے جو نئے شہر آباد کئے وہاں مقامی آبادی ہی کو رقبے الاٹ ہوئے تھے۔ ان کی بدولت ’’جی حضوریوں‘‘ کی ایک صنف تیار ہوئی جس سے غالباََ ہمارے ہاں کی جنریشن-زی بھی نجات حاصل نہیں کر پائے گی۔ ٹرمپ کو مگر ’’جی حضوری‘‘ نہیں بلکہ صرف اور صرف زمین چاہیے تاکہ وہ اسے ایک جدید ہائوسنگ سوسائٹی کی صورت ’’آباد‘‘ کرسکے۔ کامل بربادی کے بعد ایسی ’’آبادی‘‘ کا خواب آج تک کسی سامراجی ملک نے نہیں دیکھاتھا۔ ٹرمپ مگر ٹرمپ ہے۔ لطیفہ والا بڑا جانور ’’جس کی مرضی ہے انڈہ دے یا بچہ‘‘۔

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...