امریکی صدر ٹرمپ نے ہمارے والے مرشد کو تو مایوس کیا ہی ہے، بھارت کے مہاگرو مودی جی کو بھی نامراد لوٹا دیا جس پر اب بھارت بھر میں مہاگرو پر تنقید ہو رہی ہے، اگرچہ دھیمے سروں میں۔ مودی بڑی آس لے کر گئے تھے، نراش لوٹے۔ ہتھیاروں کا سودا کرنا چاہتے تھے لیکن ٹرمپ نے کہا، ایف 35 سیٹلتھ لینا ہے تو لے لو۔ بھارت کا جنگی بجٹ بہت بڑا سہی لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ کھربوں روپے محض ایف 35 پر ہی لگا دے۔ مودی کو دوسرے جہاز درکار تھے۔
پھر کہا، ہم سے تیل بھی لے لو، گیس بھی اور موج کرو لیکن روس سے تیل گیس مت خریدنا۔ مودی کا کیا حال ہوا؟۔ بس رو ہی پڑتے لیکن ضبط کیا۔ امریکی تیل روس کے تیل سے ایک تو ویسے ہی مہنگا ہے، پھر اتنی دور سے آئے گا تو اور بھی مہنگا پڑے گا۔ روس کا تیل تو پھر بھی تیسرے محلے سے آتا ہے یعنی بحیرہ الور سے براستہ بحیرہ احمر بحرہند میں۔ پھر بھارت کی بندرگاہوں پر ، امریکی تیل کی منڈی تو ساتویں پاڑے میں ہے، سات سمندر پار۔
مودی کو امید تھی کہ بنگلہ دیش کی نئی ’’پاکستان نواز‘‘ حکومت کی قیادت سابق صدر بائیڈن کی دوست تھی، ٹرمپ اس کے خلاف ہوں گے لیکن ٹرمپ نے بنگلہ دیش کی بات کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ سب کو معلوم ہے، مودی کو بھی معلوم ہو گا کہ امریکی ریاست کا مفاد اس میں ہے کہ بنگلہ دیش کی سیکورٹی کو بھارت سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ جو ایڈونچر کرنے کی آشا مودی کے من میں چٹک رہی ہے، امریکہ وہ پوری کرنے والا نہیں۔ بہرحال، مودی نے عوامی لیگ کے دو ہزار سے زیادہ رہنمائوں کو پناہ دے رکھی ہے، شاید کبھی موقع مل جائے۔
مرے پر سو درّے۔ امریکہ نے سفارتی راستے سے بھارت کو یہ پیغام بھی کوئی دید لحاظ رکھے بغیر پہنچا دیا ہے کہ وہ چاہ بہار سے ہاتھ اٹھا لے۔ بھارت کو چاہ بہار سے کوئی فائدہ ہو، ہمیں اس پر اعتراض نہیں، ایران کو فائدہ ہو، ہمیں اس پر اعتراض ہے۔ چاہ بہار کے راستے افغانستان اور وسط ایشیا جانے کا سہانا خواب بائیڈن دور میں تو نہیں ٹوٹا، ٹرمپ کے دور میں ٹوٹ گیا (یا ٹوٹنے والا ہے…؟)۔
یوں بالواسطہ پاکستان کا فائدہ ہو گیا۔ مہا گرو اب کیا سوچتے ہوں گے؟ یہی کہ ٹرمپ کے آنے سے تو اس کا نہ آنا ہی اچھا تھا۔
کچھ ایسا ہی ہمارے والا، اڈیالہ نشین مرشد بھی سوچتا ہو گا۔ یہ کہ بائیڈن ہی الیکشن جیت جاتا، ہمارا بھرم تو رہ جاتا کہ ہم حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ بھرم ہم نے ٹرمپ سے بھیک مانگ کر گنوا لیا۔ بھیک ملی نہیں، بھرم رہا نہیں۔ بیڑہ ہی غرق ہو گیا۔ دھت تیرے کی۔
_____
موٹے میاں نے دبلے میاں کے گال پر ایسا زنّاٹے کا لپاٹا رسید کیا کہ دبلے میاں اڑتے ہوئے دور جا گرے، منہ سوج گیا، بازو کی ہڈی میں ’’موچ‘‘ آ گئی۔
موٹے میاں اور دبلے میاں دونوں موگمبو میاں کے کار خاص ہیں۔ دبلے میاں نے سوچا۔ موگمبو کو بتائوں گا، موگمبو بہت ناراض ہو گا، پھر موگمبو موٹے میاں کو مزا چکھائے گا۔ اڈیالہ پاڑے سے آنے والی اطلاع کچھ اور تھی، یہ کہ موگمبو تو خوش ہوا۔ اس نے موٹے میاں کو شاباش دی اور کہا کہ اب صلح کا اعلان کر دو۔
موٹے میاں نے باہر آ کر صلح کا اعلان کر دیا، دبلے میاں نے صلح مسترد کر دی۔ دبلے میاں کو بتایا گیا، یہ موگمبو کا حکم ہے، نہ مانا تو پھر پٹوا دے گا۔ اس پر دبلے میاں نے ہتھیار ڈال دئیے ’’معاہدہ ورسائی‘‘ کے بعد۔ مورّخین کے مطابق یہ دوسرا بڑا ’’صلح نامہ‘‘ ہے۔
_____
موٹے میاں اور دبلے میاں میں وجہ تنازعہ یہ بتائی جاتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو ٹائوٹ کہتے ہیں۔ موٹے میاں اخبار نویسوں کو بتلاتے ہیں کہ دبلے میاں ڈبل ایجنٹ ہیں، اداروں کے ٹائوٹ ہیں۔ ادھر دبلے میاں بھی اخبار نویسوں کو یہی بتلاتے ہیں کہ موٹے میاں ڈبل ایجنٹ ہیں اور اداروں کے ٹائوٹ ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا پر تشریف فرما میڈیا پرسن مشکل میں ہیں۔ وہ ہر دو حضرات کی تردید نہیں کر سکتے۔ تردید کا مطلب یہ ہو گا کہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ توبہ، توبہ _ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ موگمبو کی پارٹی اور جھوٹ؟۔
اور اگر کہیں کہ دونوں سچ بول رہے ہیں تو مطلب__ یعنی کہ دونوں…؟۔ ارے بابا!
_____
موگمبو کی پارٹی کی ورکنگ کمیٹی البتہ سخت ناراض ہے۔ اس نے لمبا چوڑا مذمت نامہ جاری کیا ہے جس میں منہ بھر کے موٹے میاں کو ان سے بھی موٹی موٹی گالیاں دی گئی ہیں، ایسی موٹی موٹی کہ محض نقل کرنے ہی سے ہتک عزت داری اور انسداد فحاشی کے قوانین حرکت میں آ سکتے ہیں۔ کھل کر دبلے میاں کی طرف داری کی گئی ہے، موٹو میاں کی تو اس مذمت نامے میں بس ایسی کی تیسی کر دی ہے۔
کہیں موٹی موٹی گالیوں کے علاوہ ایک خاص انکشاف بھی اس میں ہے۔ لکھا ہے، موٹو میاں نے یہ تھپڑ دراصل موگمبو پارٹی کے منہ پر مارا ہے۔ یعنی دبلے میاں کا منہ دراصل پوری پارٹی کا منہ ہے۔
پھر تو دبلے میاں کی ہڈی بھی پوری پارٹی کی ہڈی ہے۔ گویا اعلامیہ یہ بتا رہا ہے کہ موٹو میاں کے تھپڑ سے پوری پارٹی ہڈی کو چوٹ لگی۔ خدانخواستہ دبلے میاں کی ہڈی فریکچر ہو جاتی تو گویا پوری پارٹی ہی فریکچر ہو جاتی۔
_____
خبر ہے کہ بشری بی بی اور مولانا فضل الرحمن ایک پیج پر آ گئے ہیں کم سے کم ایک معاملے پر__ یہ کہ __ کے پی کے وزیر اعلیٰ گنڈاپور کو ہٹا دیا جائے۔
تفصیل یہ ہے کہ بشری بی بی تو طویل عرصے سے گنڈاپور کے درپے ہیں۔ پچھلے دنوں مرشد نے وفد بھیجا کہ مولانا کو اس تحریک کی قیادت کرنے پر آمادہ کرے جو عید کے بعد چلانے کا مرشد ارادہ رکھتے ہیں۔ وفد ملا۔
مولانا کو بتایا گیا کہ ہم آپ کی دلجوئی کیلئے گنڈاپور کو ہٹا سکتے ہیں جو آپ کے پرانے حریف ہیں۔ مولانا نے یہ اطلاع بصد مسرت سنی لیکن اس کے بعد جو شرط لگائی، انہوں نے چراغوں کی روشنی مدھم کر دی۔ مولانا نے فرمایا کہ گنڈا پور کے بعد نئے وزیر اعلیٰ کا نام میں پیش کروں گا۔ جو نام میں دوں گا، اسی کو وزیر اعلیٰ لگانا ہو گا۔
سنا ہے کہ اس کی اطلاع مرشد کو دی گئی۔ جسے سن کر مرشد خوش ہوا نہ غصے ہوا، بس پریشان ہوا اور سلاخوں کو گھورنے لگا۔
آخری اطلاعات تک مرشد سلاخوں ہی کو گھورے جا رہا تھا اس لئے مزید پیش رفت بدستور صیغہ انتظار میں ہے۔
_____
وفاقی حکومت نے غربت میں کمی کیلئے اہم قدم اٹھایا ہے جو دراصل اس مقصد کیلئے اٹھایا گیا دوسرا قدم ہے۔ اس دوسرے قدم کے تحت حکومت نے پٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ فی لٹر کی تاریخی کمی کر دی ہے۔ مبصرین توقع کر رہے ہیں کہ اس زبردست فیصلے سے غربت کی شرح میں فوری کمی ہو گی۔
یہ دوسرا قدم ہے۔ پہلے قدم کے طور پر حکومت نے گزشتہ دنوں ارکان اسمبلی، وزیروں، مشیروں، خصوصی معاونوں، پارلیمانی سیکرٹریوں، اعلیٰ افسروں کی تنخواہوں میں پانچ سے دس لاکھ روپے کا اضافہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ان اصحاب کی غربت میں خاطر خواہ کمی ہو گئی تھی۔ امید ہے اب بھی ایسا ہی ہو گا۔