پاکستان افغانستان کے لےے امرےکی خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے اسلام آباد مےں ملاقات کے دوران امرےکہ پر کی جانے والی تنقےد پر غصے مےں آ کر ارکان پارلےمنٹ کو ڈانٹ پلا دی۔ ملاقات کے بعد پےپلزپارٹی کی سےکرٹری اطلاعات فوزےہ وہاب نے کہاکہ ہالبروک گفتگو کے دوران طےش مےں آ گئے ۔ مسلم لےگ (ن) کی رہنما تہمےنہ دولتانہ کا کہنا ہے ” ہالبروک نے کہا کہ امرےکہ پاکستان کے لےے بہت کچھ کر رہا ہے لےکن پاکستان مےں امرےکہ کے بارے مےں تاثرات اچھے نہےں ہےں ۔میںنے ان سے کہا کہ امرےکا کا تو اےک نائن الےون ہوا تھا جبکہ پاکستان مےں تو روزانہ نائن الےون ہو رہا ہے ۔ اور پاکستان امرےکی جنگ لڑ رہا ہے لےکن امرےکی روےہ خود مختار پاکستان کے لےے درست نہےں ہے ۔ اس پر ہالبروک تھوڑے گرم ہو گئے اور کہا کہ اگر پےسہ لےنا ہے تو لےں، نہیں لینا تو نہ لیں“۔۔ رچرڈ ہالبروک سے اسلام آباد ہوٹل مےں ملاقات کرنے والوں مےں ڈپٹی سپےکر قومی اسمبلی فےصل کرےم کنڈی ، اے اےن پی کے سربراہ اسفند ےار ولی خان ، پےپلز پارٹی کی مرکزی سےکرٹری اطلاعات فوزےہ وہاب، اےم کےو اےم کے وفاقی وزےر ڈاکٹر فاروق ستار ، مسلم لےگ ہم خےال کے رہنما سلےم سےف اللہ ، آفتاب احمد شےر پا¶ ، مسلم لےگ ( ن ) کی رہنما تہمےنہ دولتانہ اور سےنےٹر محمد اسحاق ڈار اور خرم دستگیر شامل تھے۔ اس گرما گرمی میں فوزیہ وہاب نے اپنے پاکستانی ساتھیوں کو قصور وار گردانتے ہوئے کہا کہ ہمیں عزت راس نہیں آتی امریکا بہت کچھ دے رہا ہے ہم بد سلوکی کرتے ہیں۔
ملاقاتوں کا تو مقصد ہی اپنی بات سمجھانے اور دوسرے فریق کی سمجھنا ہوتا ہے لیکن ہالبروک عام سے سوال پر طیش میں آ گئے جو دراصل اکثر پاکستانیوں کا سوال ہے۔ محترمہ فوزیہ وہاب صاحبہ اس معاملے پر بڑی گرم ہو رہی ہیں ان کو ہالبروک کے رویہ پر پیار ساتھی پاکستانیوں پر غصہ آ رہا ہے۔ امریکہ جو بہت کچھ دے رہا ہے وہ دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی اس کی جنگ کے معاوضے کے طور پر دے رہا ہے۔ وہ بھی جنگ میں پاکستان کے ہونے والے اخراجات اور نقصانات سے بہت کم۔ خود صدر اور وزیراعظم اعتراف کر چکے ہیں کہ اس جنگ میں آج تک پاکستان کا 36 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے اور امداد صرف پانچ سال تک ڈیڑھ ارب سالانہ ملا کرے گی۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے بقایا جات کی مد میں ابھی تک امریکہ نے پاکستان کو دو ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ بقول فوزیہ وہاب صاحبہ کے بہت کچھ دے رہا ہے تو وہ کہاں ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد ہر چیز کی قیمت میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ گیس ہے نہ بجلی ۔۔۔نہ صرف پینے کے پانی کی قلت ہے بلکہ فصلوں کے لئے پانی بھی موجود نہیں جس کی وجہ بھارت کی طرف سے کشمیر سے پاکستان آنے والے دریاو¿ں کا پانی روک لینا ہے۔ اس معاملے میں حکومتی خاموشی کی وجہ سے ہندوستان شیر بن رہا ہے اور ہم یہاں بارشوں کا پانی سمندروں میں پھینک دیتے ہیں۔ پانی اور بجلی کی ضروریات کافی حد تک صرف ایک کالا باغ ڈیم ہی پوری کر سکتا ہے جسے پیپلز پارٹی کی حکومت نے ناقابل عمل منصوبہ قرار دے دیا ہے اور اس پر صدر زرداری نے لاہور میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آخری مہر بھی ثبت کر دی۔
قومی خودداری اور مختاری کا تقاضا ہے کہ پاکستان امریکہ کی جنگ سے الگ ہو جائے اگر ایسا نہیں کر سکتا تو جنگ لڑنے کا معاوضہ خیرات کی صورت میں نہیں پورا پورا حاصل کرے ۔پہلے وہ 36 ارب ڈالر تو وصول کرے جس کا تذکرہ صدر اور وزیراعظم کرتے ہیں۔ انسانی جانوں کا تو کوئی نعم البدل ہی نہیں ہے تاہم بے گناہ مارے جانے والے افراد کے لواحقین کو لاوارث نہ چھوڑا جائے۔
ملاقاتوں کا تو مقصد ہی اپنی بات سمجھانے اور دوسرے فریق کی سمجھنا ہوتا ہے لیکن ہالبروک عام سے سوال پر طیش میں آ گئے جو دراصل اکثر پاکستانیوں کا سوال ہے۔ محترمہ فوزیہ وہاب صاحبہ اس معاملے پر بڑی گرم ہو رہی ہیں ان کو ہالبروک کے رویہ پر پیار ساتھی پاکستانیوں پر غصہ آ رہا ہے۔ امریکہ جو بہت کچھ دے رہا ہے وہ دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی اس کی جنگ کے معاوضے کے طور پر دے رہا ہے۔ وہ بھی جنگ میں پاکستان کے ہونے والے اخراجات اور نقصانات سے بہت کم۔ خود صدر اور وزیراعظم اعتراف کر چکے ہیں کہ اس جنگ میں آج تک پاکستان کا 36 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے اور امداد صرف پانچ سال تک ڈیڑھ ارب سالانہ ملا کرے گی۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے بقایا جات کی مد میں ابھی تک امریکہ نے پاکستان کو دو ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ بقول فوزیہ وہاب صاحبہ کے بہت کچھ دے رہا ہے تو وہ کہاں ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد ہر چیز کی قیمت میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ گیس ہے نہ بجلی ۔۔۔نہ صرف پینے کے پانی کی قلت ہے بلکہ فصلوں کے لئے پانی بھی موجود نہیں جس کی وجہ بھارت کی طرف سے کشمیر سے پاکستان آنے والے دریاو¿ں کا پانی روک لینا ہے۔ اس معاملے میں حکومتی خاموشی کی وجہ سے ہندوستان شیر بن رہا ہے اور ہم یہاں بارشوں کا پانی سمندروں میں پھینک دیتے ہیں۔ پانی اور بجلی کی ضروریات کافی حد تک صرف ایک کالا باغ ڈیم ہی پوری کر سکتا ہے جسے پیپلز پارٹی کی حکومت نے ناقابل عمل منصوبہ قرار دے دیا ہے اور اس پر صدر زرداری نے لاہور میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آخری مہر بھی ثبت کر دی۔
قومی خودداری اور مختاری کا تقاضا ہے کہ پاکستان امریکہ کی جنگ سے الگ ہو جائے اگر ایسا نہیں کر سکتا تو جنگ لڑنے کا معاوضہ خیرات کی صورت میں نہیں پورا پورا حاصل کرے ۔پہلے وہ 36 ارب ڈالر تو وصول کرے جس کا تذکرہ صدر اور وزیراعظم کرتے ہیں۔ انسانی جانوں کا تو کوئی نعم البدل ہی نہیں ہے تاہم بے گناہ مارے جانے والے افراد کے لواحقین کو لاوارث نہ چھوڑا جائے۔