ملاقاتوں کا تو مقصد ہی اپنی بات سمجھانے اور دوسرے فریق کی سمجھنا ہوتا ہے لیکن ہالبروک عام سے سوال پر طیش میں آ گئے جو دراصل اکثر پاکستانیوں کا سوال ہے۔ محترمہ فوزیہ وہاب صاحبہ اس معاملے پر بڑی گرم ہو رہی ہیں ان کو ہالبروک کے رویہ پر پیار ساتھی پاکستانیوں پر غصہ آ رہا ہے۔ امریکہ جو بہت کچھ دے رہا ہے وہ دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی اس کی جنگ کے معاوضے کے طور پر دے رہا ہے۔ وہ بھی جنگ میں پاکستان کے ہونے والے اخراجات اور نقصانات سے بہت کم۔ خود صدر اور وزیراعظم اعتراف کر چکے ہیں کہ اس جنگ میں آج تک پاکستان کا 36 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے اور امداد صرف پانچ سال تک ڈیڑھ ارب سالانہ ملا کرے گی۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے بقایا جات کی مد میں ابھی تک امریکہ نے پاکستان کو دو ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ بقول فوزیہ وہاب صاحبہ کے بہت کچھ دے رہا ہے تو وہ کہاں ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد ہر چیز کی قیمت میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ گیس ہے نہ بجلی ۔۔۔نہ صرف پینے کے پانی کی قلت ہے بلکہ فصلوں کے لئے پانی بھی موجود نہیں جس کی وجہ بھارت کی طرف سے کشمیر سے پاکستان آنے والے دریاو¿ں کا پانی روک لینا ہے۔ اس معاملے میں حکومتی خاموشی کی وجہ سے ہندوستان شیر بن رہا ہے اور ہم یہاں بارشوں کا پانی سمندروں میں پھینک دیتے ہیں۔ پانی اور بجلی کی ضروریات کافی حد تک صرف ایک کالا باغ ڈیم ہی پوری کر سکتا ہے جسے پیپلز پارٹی کی حکومت نے ناقابل عمل منصوبہ قرار دے دیا ہے اور اس پر صدر زرداری نے لاہور میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آخری مہر بھی ثبت کر دی۔
قومی خودداری اور مختاری کا تقاضا ہے کہ پاکستان امریکہ کی جنگ سے الگ ہو جائے اگر ایسا نہیں کر سکتا تو جنگ لڑنے کا معاوضہ خیرات کی صورت میں نہیں پورا پورا حاصل کرے ۔پہلے وہ 36 ارب ڈالر تو وصول کرے جس کا تذکرہ صدر اور وزیراعظم کرتے ہیں۔ انسانی جانوں کا تو کوئی نعم البدل ہی نہیں ہے تاہم بے گناہ مارے جانے والے افراد کے لواحقین کو لاوارث نہ چھوڑا جائے۔