پاک چین تعلقات بہت گہرے اور ایک دوسرے کی ضرورت کی بنیاد پر مبنی ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ پروجیکٹ میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ چین نے کراچی سے گوادر تک سڑک اور گوادر کی بندرگاہ بنا کر دی مگر اُسے استعمال سے گریز کیا کہ کہیں بلوچ چین کے خلاف نہ ہوجائیں اور وہ حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ چین کےلئے ایک سب سے سستا، سب سے کم فاصلہ اور محفوظ راستہ ہوگا چین اس راستے سے اپنا سامان مشرق وسطیٰ اور یورپ تک پہنچاسکے گا۔ بلوچستان میں حالات قدرے بہتر ہوئے تو امریکہ نے چین کا راستہ روکنے کے لئے یمن میں گڑبڑ کرا دی ہے تاکہ اس کا سامان تجارت وہاں سے گزرنے میں مشکلات سے دوچار ہو، اس کے علاوہ صومالیہ میں قذاقوں کو تھپکی دی ہوئی ہے کہ وہ بحر احمر کو خطرناک گزرگاہ بنا ڈالیں۔ صومالی قزاقوں نے چین کے کئی جہازوں کو پکڑا بھی ہے، مگر تاوان لے کر چھوڑ بھی دیا ہے۔ اس طرح امریکہ اور یورپ، چین کو کئی طرح سے تنگ کررہے ہیں تاکہ چند سالوں میں جب چین مکمل سپر طاقت کے روپ میں آئے تو اس کا مقابلہ کریں یا اس کو پہلے ہی سے کمزور کردیں جو اُن کی اُس پالیسی کے تحت ہوگا کہ وہ کسی ملک یا ملکوں کے گروہ کو اکیسویں صدی میں اس قابل نہیں چھوڑیں گے کہ وہ امریکہ کے مدمقابل آئے، اس سلسلے میں چین اور انڈیا ایسے دو ممالک ہیں جو امریکہ کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لئے وہ اِن دونوں کو لڑانے کا سوچ رہا ہے۔ اسی لئے امریکہ اپنے کارندے جنرل دیپک کپور کے ذریعہ یہ دھمکیاں دلوا رہے ہیں کہ انڈیا اتنا مضبوط اور بہادر ہے کہ وہ پاکستان اور چین کا بہ یک وقت مقابلہ کرسکتا ہے جو ملک چین کے فوجیوں کو ارون چل صوبہ میں آنے سے نہ روک سکے وہ دونوں ملکوں سے کیسے مقابلہ کرسکتا ہے جبکہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات بھی انتہائی گرم جوشی کے ہیں وہ اچھے دوست، اچھے پڑوسی اور اچھے اسٹراٹیجک اتحادی ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان چین دونوں مل کر ایف 17 تھنڈر طیارے بنا رہے ہیں، کروز میزائل دونوں کی مشترکہ ملکیت ہے اس کے علاوہ وہ ہمیں چشمہ بیراج میں بجلی پیدا کرنے کے لئے تمام عالمی قوانین کو پورا کرتے ہوئے ایٹمی بجلی گھر بنانے میں مدد دے رہا ہے۔ پاکستان کی شاہراہ ریشم چین اور پاکستان دوستی کی بہترین مثال ہے۔ پاکستان نے چین کو اس راستے ایران کی گیس پائپ لائن لے جانے کی پیش کش کی ہے اور چین اور پاکستان کے درمیان اس راستے کے ذریعہ ٹرین سروس شروع کرنے کے امکانات پر غور کرنے کا کہا ہے۔ یہی نہیں اور کئی منصوبہ جات پر چین اور پاکستان مل کر کام کررہے ہیں اور اچھے دوستوں کی طرح، امن و آشتی کے ساتھ، صلاح و مشورے کے ساتھ، دونوں اپنے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں اور اچھے دوستوں کی طرح دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چین امریکہ کی طرح نہ تو کسی تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی ہیکڑی کا۔ وہ جہاز دیکر ایک بولٹ نہیں روکتا کہ جہاز نہ چل سکے، وہ ہمارے ساتھ ہم آہنگی اور باہمی مشورے سے کام کررہا ہے، ہر مشکل وقت میں مشورہ دیتا ہے اور ساتھ بھی پاکستان نے امریکہ کے تمام تر دباﺅ کے باوجود چین کا ساتھ نہیں چھوڑا اور چین بھی ہماری مشکلات کو سمجھتا ہے مگر انڈیا کے جنرل دیپک کپور نے جو بیان دیا اس کی وجہ سے پاکستان اور چین کو صلاح و مشورہ کرنا لازمی ہوگیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے باہمی سلامتی و دفاع کی ساتویں سالانہ اجلاس میں جو اسلام آباد چک لالہ میں ہوا جس میں پاکستان کی طرف سے جنرل طارق مجید اور چین کی طرف پیپلز لبریشن آرمی کے ڈپٹی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل مازیا تین نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی۔ یہ اجلاس اس وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ یہ جنرل دیپک کپور کے بیان کے فوری بعد ہوا۔ اجلاس میں یہ طے ہوا کہ پاکستان اور چین اپنے دفاع اور سلامتی کے لئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں گے۔ انہوں نے حالیہ واقعات کی بناءیہ بھی طے کیا کہ وہ اپنے اسٹراٹیجک تعاون کی سطح کو بلند کریں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اُن منصوبہ جات کا ازسرنو جائزہ لیا جو یہ دونوں ممالک مشترکہ طور پر روبہ عمل لارہے ہیں۔ تربیت، انٹیلی جنس آپریشنل اور لاجسٹک تک پرتجاویز دی گئی جو بحث و مباحثہ اور بہتر سے بہتر طریقہ اپنا کر قبول کر لی گئی مزید برآں وہ پروجیکٹ جو یہ دونوں ممالک مل کر تعمیر کررہے ہیں اور خصوصاً دفاعی میدان میں اُن کے پروگریس کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں جنرل دیپک کپور کے بیان کا خاص طور پر نوٹس لیا گیا ہے اور سنجیدگی کے ساتھ ایسے اقدامات پر غور کیا گیا جس سے بھارت کی طرف سے کی گئی مہم جوئی کو ناکام بنایا جاسکے۔ اجلاس میں علاقہ کی بدلتی ہوئی صورت حال پر غور و فکر کیا گیا اور دونوں ممالک کے درمیان یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ کسی بھی خراب صورت حال کے پیش نظر کیسے مشترکہ اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ دنیا کی بدلتی ہوئی سلامتی کی صورت حال، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب جنگ اور امریکہ کی تبدیل شدہ پاک افغان پالیسی بھی زیرغور آئی۔ واضح رہے کہ پاکستان امریکی پالیسی کو اپنے مفاد سے متصادم سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ مل کر غیر مستحکم کرنے میں لگا ہوا ہے۔ چینی انجینئرز اور دیگر کاریگروں کی پاکستان میں تحفظ کے معاملات پر بھی غور کیا گیا۔ جنرل ©’ ما‘نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور قربانیاں دینے پر پاکستان کو زبردست خراج تحسیں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج اور عوام نے جو قربانیاں دی ہیں وہ اِس بات کی مستحق ہیں کہ اُن کی تعریف کی جائے کہ انہوں نے نہ صرف دنیا بلکہ انسانیت کے بچاﺅ کے لئے کی ہیں۔ جنرل طارق مجید نے چین کی معاشی ترقی کو سراہا کہ چین نے اپنی تکنالو جی کو جس طرح جدید خطوط پر استوار کیا ہے اسے قابلِ خراج تحسین قرار دیا۔ انہوں نے چین اور پاکستان دوستی کو علاقہ میں امن و استحکام کی چٹان قرار دیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور چین میدان عمل میں آئیں۔ احتیاطی تدابیر ہی نہیں بلکہ تدارکی اقدامات شروع کریں، بلوچستان میں بدامنی کے بعد امریکہ نے صومالیہ میں قزاق پیدا کئے اور یمن کو میدان جنگ بنا کر چین کے لئے مشکلات پیدا کررہا ہے۔ پاکستان، چین دوستی میں ایران کو بھی شامل کرلینے سے ہم ایک طاقت بن سکتے ہیں اور مقابلے کی صلاحیت بھی بڑھ سکتی ہے۔
خطہ میں امن کی ضامن.... پاک چین اسٹراٹیجک پارٹنر شپ