حکمرانی اچھی ہو تو اپوزیشن اور میڈیا سمیت کسی کو حکومتی معاملات پر انگلی اٹھانے کی بھلا کیسے جرات ہو سکتی ہے مگر آج تو اپوزیشن اور میڈیا سے بھی آگے بڑھ کر خود حکومتی صفوں میں سے حکومتی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور بعض معاملات میں تو
زباں بگڑی سو بگڑی تھی
خبر لیجئے ذہن بگڑا
تک نوبت پہنچتی نظر آتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ایوان کارکنان تحریکِ پاکستان کی تقریب میں اپوزیشن لیڈر والے لہجے میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے 1994ءمیں فرانس سے آگسٹا آبدوزوں کی خریداری میں صدر مملکت کی جانب سے کمیشن لینے کا تذکرہ بھی کر ڈالا اور سیاسی بنیادوں پر معاف کرائے گئے اربوں روپے کے قرضوں کی داستانیں بھی تازہ کر دیں تو چلیں ان کا یہ ”جرم“ معاف کیا جا سکتا ہے کہ ان کی پارٹی بالائی سطح کے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے مگر یہ چیئرمین ایف بی آر سلمان صدیق کو کیا ہوا کہ وہ تو سارا بھانڈہ ہی پھوڑنے کے درپے ہو گئے ہیں۔ حکومتی ناکامیوں کی ایسی تصویر کبھی دیکھی تھی نہ سنی۔ وہ تو گلے ہی پڑ گئے ہیں۔ انہوں نے کراچی چیمبرز آف کامرس کے ظہرانے میں تقریر کرتے ہوئے اپنی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ زہر میں ڈبو کر نکالا۔ ان کے بقول تو ملکی معیشت اس وقت آخری سٹیج پر پہنچ چکی ہے اور اگر اب بھی حکومت نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرضے لینے کی روش برقرار رکھی اور حالات ٹھیک نہ کئے تو پھر تباہی ہے حضور والا تباہی۔
یہ نشاندہی میڈیا نہیں کر رہا، چیئرمین ایف بی آر کی زبان بے لگام ہو رہی ہے کہ پاکستان کی معیشت بند گلی میں داخل ہو چکی ہے اس لئے کاروباری برادری حکومت سے کسی قسم کی رعائت کی توقع نہ رکھے۔ نئے نوٹ چھاپ کر مالی وسائل پورے کرنے کی روش نے مسائل کے انبار لگا دئیے ہیں۔ جب حکومت کے اپنے اخراجات پورے نہیں ہو رہے تو وہ انڈسٹری کو مراعاتی پیکج کہاں سے دے گی۔ ان کی سوسائٹی کے عیش کوش طبقہ کو یہ وارننگ تھی کہ مالی خسارہ ملکی وسائل سے پورا کرنا ہے تو ہر شہری اور ہر طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانا پڑے گا۔ گویا انہوں نے یہ ساری تمہید موخر کیا گیا آر جی ایس ٹی اور آئی ایم ایف کے تجویز کردہ دوسرے ٹیکس لاگو کرنے کے لئے باندھی تھی۔ معیشت کی جس تباہی کی نشاندہی چیئرمین ایف بی آر کر رہے ہیں اس کا پس منظر حکومت شاہ خرچیوں، بے ضابطگیوں، قومی خزانے کی لوٹ مار، حکمران طبقات کی حاصل کردہ غیر ضروری رعایات اور اربوں روپے کے قرضوں کی معافی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ان ساری بے ضابطگیوں کو ملایا جائے تو بدترین حکمرانی کی تصویر ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ برطانوی جریدے ”اکانومسٹ“ نے اسی بنیاد پر تو اپنی حالیہ اشاعت میں تبصرہ کیا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے ملک کی معیشت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اب تو ہمارے معاملات میں ہر ”ایرے غیرے“ کو ”اکانومسٹ“ جیسی زبان لگی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب دیدہ دلیری پر مبنی حکومت کرپشنوں کی حکومتی صفوں کے اندر سے ہی نشاندہی ہو رہی ہو۔ وزیر وزیر پر پورے اعتماد اور ثبوتوں کے ساتھ الزام دھر رہے ہوں اور سپریم کورٹ کے روبرو حکومتی کرپشنوں کے اعترافات ہو رہے ہوں تو پھر بیرونی مبصرین کی کھلنے والی زبانیں کون بند کر سکتا ہے۔ اب تو حالت یہ بن گئی ہے کہ حکومتی عمارت میں سے کوئی ایک اینٹ بھی اکھاڑ لی جائے تو کرپشن کی ہزار داستانیں باہر کود پڑیں گی۔ سوئٹزر لینڈ کے ایک بنک ڈائریکٹر نے بھی پھبتی کسی ہے کہ پاکستانی باشندے تو غریب ہوں گے مگر پاکستان ہرگز غریب ملک نہیں ہے کیونکہ اس وقت چودہ سو کھرب پاکستانی کرنسی سوئس بنکوں میں پڑی ہے جو پاکستان میں بروئے کار لائی جائے تو اس سے 30 سال تک پاکستان کا ٹیکس فری بجٹ پیش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی باشندوں کے لئے چھ کروڑ نئی اسامیاں نکالی جا سکتی ہیں۔ پورے ملک میں چار رویہ سڑکوں کا جال بچھایا جا سکتا ہے۔ پانچ سو فلاحی منصوبوں کو ہمیشہ کے لئے مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ملک کے ہر شہری کو ساٹھ سال تک ماہانہ دو ہزار روپے سرکاری خزانے سے ادا کئے جا سکتے ہیں اور ملک کی عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے ہمیشہ کے لئے خلاصی ہو سکتی ہے۔ سوئس بنکوں میں یہ رقوم پاکستان کی کن شخصیات کے کھاتوں میں جمع ہیں۔ زبان کھولی جائے تو صدر مملکت کا ارشاد سامنے آ جائے گا کہ میں اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتا ہوں مگر صحافت کے نام پر اپنے خلاف بدنامی کی مہم کے آگے سر نہیں جھکاﺅں گا۔ قوم کو آخر یہ پوچھنے کا حق تو دیا جائے کہ سوئس بنکوں میں کھرب ہا روپے کی جمع کرائی گئی رقوم کیا کسی قارون کے خزانے سے نکال کر وہاں تک پہنچائی گئی ہیں۔ پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اس کے سارے وسائل نچوڑ نچوڑ کر اور چچوڑ چچوڑ کر ملک سے باہر منتقل کئے جا رہے ہیں۔ چلیں ہوس زر کی کوئی حد مقرر نہیں تو ملک و قوم کی دولت کو کم از کم ملک کے اندر تو رہنے دیا جائے۔
اور پھر یہ کیا ہے کہ یہی حکمران طبقہ ہر قسم کی سرکاری سہولتیں اور مراعات بھی سمیٹتا رہے اور ٹیکس کی شکل میں قومی خزانے میں ایک دھیلا بھی جمع نہ کرائے۔ کیا یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں کہ جن ساڑھے گیارہ سو ارکان کو قوم نے منتخب کرکے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں بھجوایا ہے ان میں سے ساڑھے آٹھ سو ارکان اپنے ذمہ واجب الادا کسی بھی سقم کے ٹیکس کا ایک بھی پیسہ جمع نہیں کراتے۔ ملک کے غریب عوام خطِ غربت کو عبور کرتے کرتے اکثریت میں آ گئے ہیں یعنی ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت انہی غریب عوام کو نگلنے کے لئے منہ کھولے کھڑے ہیں۔ انہیں بنیادی ضرورت کی بھی کوئی چیز دستیاب نہیں۔ بنکوں سے چند ہزار کے قرضے لے کر ان کی ادائیگی کی خاطر اپنی ساری جائیداد نیلام کرا بیٹھے ہیں۔ اچھی زندگی کی آس میں ایڑیاں رگڑتے زندہ درگور ہو چکے ہیں مگر پھر بھی سارے عذاب انہی پر ٹوٹ رہے ہیں، سارا حساب کتاب انہی کا رکھا جا رہا ہے۔ ساری جکڑ بندیاں انہی کے لئے تیار کی جاتی ہیں اور ساری شیرینیوں، تمام مراعات، ہر قسم کی سہولتوں پر انہی حکمران اشرافیہ طبقات کی دسترس ہے جو پہلے ہی ”ہذا من فضلِ ربی“ ہیں۔ اتنا کچھ سمیٹ چکے ہیں کہ سنبھالے نہیں بن پڑ رہا۔ ملک کنگال ہے مگر ان کی خوشحالی کی داستانیں کرپشنوں کے چٹخاروں کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں سنی جا رہی ہیں تو پھر حضور والا زبان زد عام ہونے والے معاملات میڈیا پر آتے آتے آپ کی بدنامی کی مہم کے کھاتے میں کیسے پڑ جاتے ہیں۔ بقول حبیب جالب ”ظلم کو ضیائ، صرصر کو صبا کیا لکھنا“ کیا بہتر نہیں کہ چیں بچیں ہونے کے بجائے اصلاح احوال کی طرف توجہ دے لی جائے۔ جب حکومت کے اندر سے ہی قباحتوں، بداعمالیوں، بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہو رہی ہے تو بے چین و مضطرب خلقِ خدا آپ کے پیدا کردہ حالات کے شکنجے میں جکڑی آخر کب تک اپنی زبانیں بند رکھے گی اور سن لیجئے۔ خلقِ خدا بولے گی تو نقارہ خدا بج اٹھے گا۔ آپ بچیں اس وقت سے جب آپ سے کچھ بھی نہیں سنبھالا جائے گا۔ یہی وہ لمحہ ہو گا جب سارا نقصان آپ کا ہو گا اور سارا فائدہ زندہ درگور عوام کے کھاتے میں جائے گا کیونکہ ان کے پاس تو مزید نقصان اٹھانے کے لئے کچھ موجود ہی نہیں۔
زباں بگڑی سو بگڑی تھی
خبر لیجئے ذہن بگڑا
تک نوبت پہنچتی نظر آتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ایوان کارکنان تحریکِ پاکستان کی تقریب میں اپوزیشن لیڈر والے لہجے میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے 1994ءمیں فرانس سے آگسٹا آبدوزوں کی خریداری میں صدر مملکت کی جانب سے کمیشن لینے کا تذکرہ بھی کر ڈالا اور سیاسی بنیادوں پر معاف کرائے گئے اربوں روپے کے قرضوں کی داستانیں بھی تازہ کر دیں تو چلیں ان کا یہ ”جرم“ معاف کیا جا سکتا ہے کہ ان کی پارٹی بالائی سطح کے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے مگر یہ چیئرمین ایف بی آر سلمان صدیق کو کیا ہوا کہ وہ تو سارا بھانڈہ ہی پھوڑنے کے درپے ہو گئے ہیں۔ حکومتی ناکامیوں کی ایسی تصویر کبھی دیکھی تھی نہ سنی۔ وہ تو گلے ہی پڑ گئے ہیں۔ انہوں نے کراچی چیمبرز آف کامرس کے ظہرانے میں تقریر کرتے ہوئے اپنی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ زہر میں ڈبو کر نکالا۔ ان کے بقول تو ملکی معیشت اس وقت آخری سٹیج پر پہنچ چکی ہے اور اگر اب بھی حکومت نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرضے لینے کی روش برقرار رکھی اور حالات ٹھیک نہ کئے تو پھر تباہی ہے حضور والا تباہی۔
یہ نشاندہی میڈیا نہیں کر رہا، چیئرمین ایف بی آر کی زبان بے لگام ہو رہی ہے کہ پاکستان کی معیشت بند گلی میں داخل ہو چکی ہے اس لئے کاروباری برادری حکومت سے کسی قسم کی رعائت کی توقع نہ رکھے۔ نئے نوٹ چھاپ کر مالی وسائل پورے کرنے کی روش نے مسائل کے انبار لگا دئیے ہیں۔ جب حکومت کے اپنے اخراجات پورے نہیں ہو رہے تو وہ انڈسٹری کو مراعاتی پیکج کہاں سے دے گی۔ ان کی سوسائٹی کے عیش کوش طبقہ کو یہ وارننگ تھی کہ مالی خسارہ ملکی وسائل سے پورا کرنا ہے تو ہر شہری اور ہر طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانا پڑے گا۔ گویا انہوں نے یہ ساری تمہید موخر کیا گیا آر جی ایس ٹی اور آئی ایم ایف کے تجویز کردہ دوسرے ٹیکس لاگو کرنے کے لئے باندھی تھی۔ معیشت کی جس تباہی کی نشاندہی چیئرمین ایف بی آر کر رہے ہیں اس کا پس منظر حکومت شاہ خرچیوں، بے ضابطگیوں، قومی خزانے کی لوٹ مار، حکمران طبقات کی حاصل کردہ غیر ضروری رعایات اور اربوں روپے کے قرضوں کی معافی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ان ساری بے ضابطگیوں کو ملایا جائے تو بدترین حکمرانی کی تصویر ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ برطانوی جریدے ”اکانومسٹ“ نے اسی بنیاد پر تو اپنی حالیہ اشاعت میں تبصرہ کیا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے ملک کی معیشت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اب تو ہمارے معاملات میں ہر ”ایرے غیرے“ کو ”اکانومسٹ“ جیسی زبان لگی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب دیدہ دلیری پر مبنی حکومت کرپشنوں کی حکومتی صفوں کے اندر سے ہی نشاندہی ہو رہی ہو۔ وزیر وزیر پر پورے اعتماد اور ثبوتوں کے ساتھ الزام دھر رہے ہوں اور سپریم کورٹ کے روبرو حکومتی کرپشنوں کے اعترافات ہو رہے ہوں تو پھر بیرونی مبصرین کی کھلنے والی زبانیں کون بند کر سکتا ہے۔ اب تو حالت یہ بن گئی ہے کہ حکومتی عمارت میں سے کوئی ایک اینٹ بھی اکھاڑ لی جائے تو کرپشن کی ہزار داستانیں باہر کود پڑیں گی۔ سوئٹزر لینڈ کے ایک بنک ڈائریکٹر نے بھی پھبتی کسی ہے کہ پاکستانی باشندے تو غریب ہوں گے مگر پاکستان ہرگز غریب ملک نہیں ہے کیونکہ اس وقت چودہ سو کھرب پاکستانی کرنسی سوئس بنکوں میں پڑی ہے جو پاکستان میں بروئے کار لائی جائے تو اس سے 30 سال تک پاکستان کا ٹیکس فری بجٹ پیش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی باشندوں کے لئے چھ کروڑ نئی اسامیاں نکالی جا سکتی ہیں۔ پورے ملک میں چار رویہ سڑکوں کا جال بچھایا جا سکتا ہے۔ پانچ سو فلاحی منصوبوں کو ہمیشہ کے لئے مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ملک کے ہر شہری کو ساٹھ سال تک ماہانہ دو ہزار روپے سرکاری خزانے سے ادا کئے جا سکتے ہیں اور ملک کی عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے ہمیشہ کے لئے خلاصی ہو سکتی ہے۔ سوئس بنکوں میں یہ رقوم پاکستان کی کن شخصیات کے کھاتوں میں جمع ہیں۔ زبان کھولی جائے تو صدر مملکت کا ارشاد سامنے آ جائے گا کہ میں اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتا ہوں مگر صحافت کے نام پر اپنے خلاف بدنامی کی مہم کے آگے سر نہیں جھکاﺅں گا۔ قوم کو آخر یہ پوچھنے کا حق تو دیا جائے کہ سوئس بنکوں میں کھرب ہا روپے کی جمع کرائی گئی رقوم کیا کسی قارون کے خزانے سے نکال کر وہاں تک پہنچائی گئی ہیں۔ پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور اس کے سارے وسائل نچوڑ نچوڑ کر اور چچوڑ چچوڑ کر ملک سے باہر منتقل کئے جا رہے ہیں۔ چلیں ہوس زر کی کوئی حد مقرر نہیں تو ملک و قوم کی دولت کو کم از کم ملک کے اندر تو رہنے دیا جائے۔
اور پھر یہ کیا ہے کہ یہی حکمران طبقہ ہر قسم کی سرکاری سہولتیں اور مراعات بھی سمیٹتا رہے اور ٹیکس کی شکل میں قومی خزانے میں ایک دھیلا بھی جمع نہ کرائے۔ کیا یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں کہ جن ساڑھے گیارہ سو ارکان کو قوم نے منتخب کرکے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں بھجوایا ہے ان میں سے ساڑھے آٹھ سو ارکان اپنے ذمہ واجب الادا کسی بھی سقم کے ٹیکس کا ایک بھی پیسہ جمع نہیں کراتے۔ ملک کے غریب عوام خطِ غربت کو عبور کرتے کرتے اکثریت میں آ گئے ہیں یعنی ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت انہی غریب عوام کو نگلنے کے لئے منہ کھولے کھڑے ہیں۔ انہیں بنیادی ضرورت کی بھی کوئی چیز دستیاب نہیں۔ بنکوں سے چند ہزار کے قرضے لے کر ان کی ادائیگی کی خاطر اپنی ساری جائیداد نیلام کرا بیٹھے ہیں۔ اچھی زندگی کی آس میں ایڑیاں رگڑتے زندہ درگور ہو چکے ہیں مگر پھر بھی سارے عذاب انہی پر ٹوٹ رہے ہیں، سارا حساب کتاب انہی کا رکھا جا رہا ہے۔ ساری جکڑ بندیاں انہی کے لئے تیار کی جاتی ہیں اور ساری شیرینیوں، تمام مراعات، ہر قسم کی سہولتوں پر انہی حکمران اشرافیہ طبقات کی دسترس ہے جو پہلے ہی ”ہذا من فضلِ ربی“ ہیں۔ اتنا کچھ سمیٹ چکے ہیں کہ سنبھالے نہیں بن پڑ رہا۔ ملک کنگال ہے مگر ان کی خوشحالی کی داستانیں کرپشنوں کے چٹخاروں کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں سنی جا رہی ہیں تو پھر حضور والا زبان زد عام ہونے والے معاملات میڈیا پر آتے آتے آپ کی بدنامی کی مہم کے کھاتے میں کیسے پڑ جاتے ہیں۔ بقول حبیب جالب ”ظلم کو ضیائ، صرصر کو صبا کیا لکھنا“ کیا بہتر نہیں کہ چیں بچیں ہونے کے بجائے اصلاح احوال کی طرف توجہ دے لی جائے۔ جب حکومت کے اندر سے ہی قباحتوں، بداعمالیوں، بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہو رہی ہے تو بے چین و مضطرب خلقِ خدا آپ کے پیدا کردہ حالات کے شکنجے میں جکڑی آخر کب تک اپنی زبانیں بند رکھے گی اور سن لیجئے۔ خلقِ خدا بولے گی تو نقارہ خدا بج اٹھے گا۔ آپ بچیں اس وقت سے جب آپ سے کچھ بھی نہیں سنبھالا جائے گا۔ یہی وہ لمحہ ہو گا جب سارا نقصان آپ کا ہو گا اور سارا فائدہ زندہ درگور عوام کے کھاتے میں جائے گا کیونکہ ان کے پاس تو مزید نقصان اٹھانے کے لئے کچھ موجود ہی نہیں۔