وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے حکم پر بلوچستان میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام حکومت کو مجبوراً کرنا پڑا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ کار بھی کوئی نہیں تھا ۔وزیر اعلیٰ رئیسانی گذشتہ ایک ہفتہ سے انگلینڈ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ بیٹھے گل چھرے اڑا رہے ہیں۔ انہیں سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود اس بات کا احساس تک نہیں ہوا کہ کوئٹہ کا اس قدر کربناک واقعہ ہونے کے بعد صوبائی حکومت کو کیا اقدامات کرنا چاہئیں تھے۔ لوگ اپنے پیاروں کی میتیں لے کر تین دن سڑک پر دھرنا دیئے بیٹھے رہے لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ انتہائی ظالم حکمران کی اس سے بڑی مثال کہاں ملے گی؟ کوئٹہ کا دلخراش واقعہ محض ایک مذہبی فرقے کا المیہ نہیں، یہ پوری قوم کا المیہ ہے اگر اس نوعیت کے واقعات کو روکا نہ گیا تو خانہ جنگی میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
ایک طرف بھارت ہماری سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کر رہا ہے اور اس پر ستم یہ کہ جب ہماری فوج جواب میں کارروائی کرتی ہے تو اسے دھمکیاں دیتا ہے.... کیا ہمارا ایٹمی پروگرام ٹھپ ہو چکا ہے جو بھارت کی زبان درازی قابو نہیں آ رہی؟ یا ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کی طرح بھارت کی بھی غلامی اختیار کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے؟ پیپلزپارٹی نے اپنی ٹرم رو دھو کے پوری تو کر لی ہے اور اس میں بھی مسلم لیگ (ن) کی معاونت شامل ہے۔ اگر میاں نواز شریف صدر زرداری کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو وہ کبھی پانچ سال پورے نہ کر پاتے۔ اگرچہ اس معاونت پر میاں نواز شریف کو مختلف لوگوں کی بہت سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر انہوں نے جمہوریت کی بقا کےلئے لوگوں کے طعنے بھی برداشت کئے۔ اب وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بروقت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے کیونکہ یہود و ہنود و نصاریٰ نے مل کر پاکستان میں ایک بار پھر انتخابات ملتوی کروائے، جمہوریت کی بساط لپیٹنے اور فوجی آمریت کی راہ ہموار کرنے کے مذموم عزائم پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے.... اب پیپلزپارٹی کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح میاں نواز شریف نے انہیں پانچ سال پورے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ وہ بھی عام انتخابات بروقت کروانے کی سنجیدہ کوشش کریں اور انتخابات کے عمل کو بالکل صاف شفاف اور دھاندلی سے پاک بنانے پر توجہ دیں تاکہ فوجی آمریت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جا سکے۔
دوسری طرف بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باعزت اور باغیرت ہونے کا ثبوت دیں اور دشمن کی گیدڑ بھبکیوں کے جواب میں تلخ ترین لہجہ اختیار کریں اور اپنے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی قوت کو اپنے مورال کی بلندی کا ذریعہ بنائیں۔ بقول حضرت علامہ اقبالؒ
بگیر از من کہ زاغِ دخمہ بہتر
ازآن بازی کہ دست آموزِ شاھیت