میںنے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری سے عرض کیا تھا۔ حضور! اس ملک میں کرپشن ہے، بد امنی ہے،بری حکمرانی ہے،بے روزگاری ہے، دہشت گردی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کے دامن پر ایک داغ نہیں بلکہ داغ ہی داغ ہیں۔ آپ کے تجزیے سے ہم اتفاق کرتے ہیں مگر جو راستہ آپ اختیار کررہے ہیں اور جس کے بارے میں آپ کا دعویٰ ہے کہ وہ خلاف آئین نہیں مگر وہ راستہ آئین کی طرف نہیں انارکی کی طرف جاتا ہے۔ وہ راستہ ایوانوں کی طرف نہیں بارکوں کی طرف جاتا ہے اور یہ راستہ امن و سلامتی کی طرف نہیں بدامنی اور افراتفری کی طرف جاتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہمارے حقیقی خدشات سے پہلو بچاتے ہوئے صرف یہی جواب دیا کہ آپ مطمئن رہیں لانگ مارچ سے خیر ہی خیر برآمد ہوگا۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اچانک ڈاکٹر طاہر القادری کسی بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پاکستان تشریف لے آئے ہیں۔ میں اس بحث سے بھی اجتناب کرتا ہوں کہ اس بار ایجنڈا ملکی اسٹیبلشمنٹ کا نہیں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اسمبلیوں کو توڑنے، الیکشن کمیشن کی بساط لپیٹنے، اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ بنوانے کی جو باتیں کر رہے ہیں وہ نہ صرف ملکی آئین کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ وہ تباہی ہی تباہی کا راستہ ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ملک میں نہ کوئی پارلیمنٹ ہے نہ کوئی قانون ہے نہ کوئی ایوان ہے۔ بدلتے موسم کی طرح جناب طاہر القادری ہر روز جو نیا مطالبہ یا نئے انقلاب کی بات کررہے ہیں اسکی کوئی تائید نہیں کرتا نہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام اور نہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں۔
دوروز قبل جناب عمران خان بھی ہمیں بارودی سرنگوں کے قریب قریب بڑھتے ہوئے دکھائی بھی دئیے اور سنائی بھی دئیے مگر اللہ کا شکر ہے کہ وہ بال بال بچے ہیں یا انہیں اپنی جماعت کے بعض سنجیدہ فکر سیاست دانوں نے بچا لیا ہے۔ انہوں نے بڑے خطر ناک تین مطالبات کیے تھے پہلا یہ کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے یہ وہی طاہرالقادری والا مطالبہ تھا اُن کا دوسرا مطالبہ تھا کہ نگران حکومت مک مکاوالی نا منظور ہوگی اُنکی مرضی کی نگران حکومت ہونی چاہئے اور اُن کا تیسرا مطالبہ تھا کہ صدر آصف علی زرداری مستعفی ہوں۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمارے کارکنوں کا خون کھول رہا ہے۔انہوں نے کارکنوںکو انتظار کرنے اور اُنکی دوسری کال کا انتظار کرنے کی تلقین کی۔ عمران خان کے یہ تینوں مطالبات ماورائے آئین تھے۔ جب سے عوامی حکومت برسراقتدار آئی ہے ہر دوسرے تیسرے مہینے کرپشن کا کوئی بڑا اور بعض وقت بہت بڑا سکینڈل سامنے آتا ہے۔ حج کرپشن،ایفی ڈرین کرپشن، اوگرا کرپشن، سٹیل مل کرپشن، ریلوے کرپشن اور رینٹل پاور کرپشن کیس تو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کیس ہے جس میں قومی خزانے کا تقریبا ایک کھرب سے زائد روپیہ لوٹا گیا۔ اس منصوبے کا بظاہر مقصد بجلی کی جلد پیداوار حاصل کرنا تھا مگر دراصل یہ کمیشن کھانے اور مال بنانے کا ایک منصوبہ تھا۔اس منصوبے میں سرِ فہرست اس وقت کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف تھے جن کی بھرپور معاونت اپنا حصہ وصول کرکے وزارت پانی و بجلی کے افسران کر رہے تھے۔ ایک سال سے زائد مدّت سے یہ کیس عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت تھا جتنی رقم کرائے کے ان بجلی گھروں میں لٹائی گئی اور بغیر بجلی گھروں کے نمائشی جنریٹر رکھ کر افتتاح کروائے گئے اس سے تہائی رقم کیساتھ اپنے بجلی گھر بنائے جاسکتے تھے۔ عدالت عظمیٰ حکومت کو باور کراتی رہی کہ نیک نام لوگوں کو وزیراعظم مقرر کیاجائے مگرشاید پیپلز پارٹی کے پاس کوئی نیک نام رکن اسمبلی ہے ہی نہیں اوراگر کوئی ہے بھی تو وہ جناب آصف علی زرداری کے مطلوبہ ”معیار دیانت“ اور اُنکے ساتھ وفاداری کے معیار پر پورا نہیں اترتا‘ اس لئے اُن لوگوں کو ہی وزیراعظم بنوایا گیا جو بہتی گنگا میں خودبھی غوطے لگائیں اور معیار مطلوب کیمطابق زرداری صاحب کے مفادات کا بھی خیال رکھیں‘ اس لئے کرپٹ لوگوں کا بروقت احتساب عدالت عظمیٰ کو ضرور کرنا چاہئے مگر ہم بصدادب عدالت عظمیٰ سے یہ عرض کرنے کی اجازت چاہیں گے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا مطالبہ اور اُن کا فیصلہ بیک وقت آئے۔ محض اتفاق ہوگا اور یقینا ایسا ہی ہوگا مگر اس فیصلے کو اگر چند روز کیلئے مو¿خر کرلیا جاتا تو شاید ساری قوم اس کنفیوژن سے محفوظ ہوجاتی جو ایک دو روز تک پھیلا رہا۔ طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی رہیں سسٹم کو لپیٹے سمیٹنے کی پیش گوئیاں ہوتی رہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس موقعے پر فہم و فراست کا ثبوت دیا اورشاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حزب اختلاف کی کوئی جماعت سہانے سپنوں اور سرابوں کا شکار نہیں ہوئی۔ سب نے بیک زبان ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کو مسترد کردیا اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرے۔ میاں نواز شریف، سیّد منور حسن، مولانا فضل الرحمن، حاصل بخش بزنجو، حامد چٹھہ، محمود اچکزئی اور طلال بگٹی وغیرہ کی شرکت اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ملک کی اکثر پارٹیوں کی نمائندگی اس موقع پر یہ بات خاص طورپر نوٹ کرنے کے قابل تھی کہ تین بلوچ رہنماﺅں اور بلوچستان کے پانچ سابق رہنماﺅں کے اس اجلاس میں شرکت کاجو ایک واضح پیغام تھا کہ وہ صاف شفاف انتخابات کو ہی تبدیلی کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے میں شمولیت نہ کرنے کا اعلان کرکے قومی جماعتوں کے متفقہ موقف کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری طریق احتجاج سے زبردست اختلاف رکھنے کے باوجود میں یہ اعتراف کروں گا کہ شیخ الاسلام بڑی تعداد میں اپنے مریدوں، معتقدوں، شاگردوں اور عام لوگوں کو لیکر اور ایک پُر امن لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوگئے۔قاضی حسین احمد، میاں نواز شریف اور دیگر کی جماعتوں اور شخصیات نے یہاں دھرنا دینے کیلئے مارچ کیا مگر کچھ کو اسلام آباد کے باہر طاقت کے بل بوتے پر روک دیا گیا اور کچھ کے مطالبات راستے میں ہی منظور کرلئے گئے۔ یہ بذات خود قابل غور سوال ہے کہ اسلام آباد کے حکمرانوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی اتنی پذیرائی کیوں کی۔ دوسری کامیابی علامہ صاحب کو یہ ملی کہ حکمرانوں کی بد عنوانی اور بری حکمرانی کے چرچے سارے جہان میں ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب ضرورت اپنی انگریزی دانی کا ثبوت بھی دیا اور امریکہ کو بتادیا کہ جن حکمرانوں کو وہ برسر اقتدار لیکر آتے ہیں انکی کھربوں روپے کی کرپشن سے عوام ناراض اور نالاں ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی تیسری کامیابی یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ دل خوش کن حقیقت بھی آشکار ہوئی ہے کہ وہ جب چاہیں ہزاروں میں نہیںلاکھوں میں لوگوں کو اکٹھا کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کیلئے ہمارا دردمندانہ مشورہ یہ ہوگا کہ وہ حکمت و تدبر سے کام لیں اور فی الفور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کریں۔ اور شدید ترین سردی میں کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے، عورتوں اور بوڑھوں پر رحم کھائیں۔ وہ خود تو گرم اور آرام دہ کنٹینر میں نرم و گداز صوفوں پر تشریف فرما ہوکر خطاب کرتے ہیں جبکہ بچوں کو نمونیہ ہورہا ہے اور وہ ہسپتالوں میں داخل کروائے جارہے ہیں‘ اس لئے اب دھرنا اپنے اختتام کو پہنچنا چاہئے۔
صدر آصف علی زرداری نے بھی اس موقعے پر دانائی کا ثبوت دیا اور اعلان کیا کہ دھرنا کے شرکاءکیخلاف کوئی آپریشن نہیںہوگا‘ اب وہ ایک اور دانائی کا ثبوت دیں اور فی الفور انتخابات کے شیڈول کا اعلان کریں تاکہ ہر طرح کاکنفیوژن دور ہوجائے۔ اسکے علاوہ ڈاکٹر طاہر القادری سے بھی مذاکرات کریں تاکہ دھرنا دینے والے سادہ دل لوگوں کو رہائی مل سکے۔