جمعة المبارک ،5 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘18 جنوری2013 ئ


اللہ کرے بارش ہو اور دھرنے والے بھاگ جائیں، غلام بلور
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی فرد بیمار ہو جائے، تو اسے ڈاکٹرز کے پاس لے کر بھاگتے ہیں لیکن جب حکیم، اطباءاور ڈاکٹرز مریض کو جواب دے دیتے ہیں تو پھر ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ درباروں پر منتیں مانتے ہیں، بزرگان دین کے پاس لے جا کر دعائیں کرواتے ہیں لیکن جب مریض کو ڈاکٹروں کے پاس لے کر پھر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت اللہ کو بھولے ہوتے ہیں۔
وزیر ریلوے غلام احمد بلور کو بھی آج اللہ یاد آ گیا لیکن ریلوے کو تباہ کرتے وقت انہیں اللہ بھول گیا تھا اور ان آنکھوں پر پردہ پڑ گیا تھا۔ آج سیاسی جماعتوں کے سربراہان بھی بلور جیسی ہی دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔ ادھر ”لونگ مارچ“ میں شریک بچے اور خواتین بھی رو رو کر دعائیں مانگ رہی ہیں دیکھیں کس کی دعا قبول ہوتی ہے؟ ”علامہ کینیڈین“ زیادہ رو کر دعا کرتے ہیں یا پشاوری بلور۔ بہرحال اگر بارش برسی تو نقصان ”ڈانگ مارچ“ کا ہی ہو گا۔ شعر میں ذرا تصرف سے عرض ہے....
اگر مینہ زور سے برسا تو گل جائیں گی دیواریں
کہ اینٹیں ساری کچی ہیں ”علامہ جی“کے بھٹے کی
علامہ صاحب اپنی فیملی کو لے کر بلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھے ہیں جبکہ عوام کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ علامہ صاحب بھی ایک رات کھلے آسمان کے نیچے برستی بارش میں گزاریں تو اپنے مشن کے ساتھ انکے اخلاص کا اندازہ ہو۔ غلام بلور کی دعا پر 18 کروڑ عوام آمین کہتے ہیں تاکہ معصوم بچے اور صنفِ نازک اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ اس وقت کچھ لوگ تو تماشا دیکھنے کے لئے یوں کہہ رہے ہیں....
اے ابر کرم اتنا برس کہ وہ آ نہ سکے
اگر آ گیا تو اتنا برس کہ وہ جا نہ سکے
دونوں حوالوں سے وہ خوش ہیں نہ آتے تب بھی گرما گرمی اگر آ گیا تو اب یہاں بھی گرما گرمی
پیپلز پارٹی والے احباب اب ہر محفل میں یہی کہہ دیتے ہیں کہ ابرہہ کا لشکر اسلام آباد پر حملہ آور ہوا ہم نے آسمان سے ابابیل آتے تو نہیں دیکھے لیکن بارش برستی ضروری دیکھی ہے اس لئے ہم حق پر ہیں اور جن لوگوں نے گذشتہ روز ”حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا“ کا نعرہ بلند کیا انہیں آج قدرت الٰہیہ کا فیصلہ قبول کر لینا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
اسلم رئیسانی نے چاغی میں 6 ہزار ایکڑ زمین اہلخانہ کے نام الاٹ کرائی: صادق عمرانی، دوسری طرف سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے لندن کے علاقے نائٹ برج میں کروڑوں مالیت کا فلیٹ خرید کر سراوان ہاﺅس نام رکھ دیا
پاکستان میں 65 سال سے ایک ہی بات دیکھنے میں آئی ہے، کہ ایم پی اے، ایم این اے جب الیکشن لڑتے ہیں تو ادھار پکڑ کر بنکوں سے لون لے کر کمپین چلاتے ہیں لیکن پانچ سال کے بعد انکے پاس کروڑوں کی جائیداد ہوتی ہے۔ تازہ مثال سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ہے جنہوں نے الیکشن کمپین چلانے کیلئے اپنے گھر کا ایک حصہ فروخت کیا تھا لیکن آج نہ صرف ملتان بلکہ پورے ملک میں انکی اور انکے بچوں کی اربوں روپے کی جائیداد ہے۔ اسلم رئیسانی نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد چاغی میں 6 ہزار ایکڑ زمین اہلخانہ کے نام الاٹ کروائی اور اب لندن نائٹ برج میں کروڑوں مالیت کا فلیٹ بھی خرید لیا ہے۔ یہ وہی پیسہ ہو گا‘ جو بلوچستان کی ترقی کیلئے وفاق سے ملا لیکن ماہر جگت نے اسے اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا جبکہ بلوچ عوام چھپڑوں میں کھڑا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پسنی میں 15 ہزار ایکڑ زمین بھی رئیسانی نے اپنے نام الاٹ کروائی۔ نیب ذرا حرکت میں آئے اور رئیسانی کو ملک واپس لا کر حساب کتاب برابر کرے۔ وفاق نے 170 ارب روپے بلوچستان کی ترقی کیلئے دئیے لیکن بلوچستان میں تو ابھی تک ”اُلو“ بول رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ لندن بھاگ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے اور بلوچستان کے امن سے 5 سال تک کھیلنے والے سیاستدانوں کو قانون کے شکنجے میں لائے۔ شاعر نے کہا تھا....
کانٹے کو چیرتی ہوئی کونپل دکھائی دیتی ہے
مجھے تو پیار کی آہٹ سنائی دیتی ہے
بدل کے رہتے ہیں موسم بھی اور حاکم بھی
زمین ظلم کی جب جب دہائی دیتی ہے
٭٭٭٭٭
صرف ایک روز کیلئے لاہور، گوجرانوالہ ریجن میں سی این جی سٹیشنز کھولے گئے
24 روز مسلسل بندش کے بعد سوئی ناردرن گیس کمپنی نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری بھی ہے، تو صرف ایک دن کیلئے شاعر نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا
بن مانگے بوسہ دیکر کہنے لگے حضور
حاتم طائی سے کہنا سخاوت اسے کہتے ہیں
سوئی نادرن گیس کمپنی مگرمچھ کی طرح اگر ہوش میں آ گئی ہے تو برائے مہربانی اس سخاوت کو ذرا دیر تک جاری رکھے۔ گذشتہ روز روڈ پر آ کر یوں لگا جیسے پٹرول کی ہڑتال ہو چکی ہے جس کے باعث 5 کلومیٹر تک گاڑیوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں لیکن استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ سوئی گیس والوں نے سخاوت کر دی ہے بہرحال اب تو سوئی گیس بجلی سے بھی آگے چلی گئی ہے۔ بجلی آنکھ مچولی کے بعد آ تو جاتی ہے لیکن سوئی گیس تو ”لمبیاں جدائیاں“ دیتی ہے ڈاکٹر عاصم نیند کی گولیاں کھا کر سوئے ہیں انہیں اب اٹھنا چاہئے تاکہ غریب کے گھروں میں چولہا جلے، گاڑیوں والوں نے بھی سی این جی بندش کے بعد منہ مانگے کرائے وصول کرنا شروع کر دئیے تھے۔ مالکان نے زبردستی سٹیشن کھول کر اچھا کیا۔ پوری قوم کی حکومت سے گزارش ہے کہ اب گیس کو ملک میں عجوبہ مت بنائیں۔

ای پیپر دی نیشن