اپوزیشن رہنماو ں کے اجلاس نے بھی طاہر القادری کو لچک دکھانے پر مائل کیا

لاہور (شعیب الدین سے) 13 جنوری کو لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ گزشتہ شام اختتام پذیر ہو گیا جس کے ساتھ ہی ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ ووٹ کی قوت سے وجود میں آنے والے پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت میں پنہاں ہے۔ پاکستان ووٹ سے بنا اور ووٹ کے ذریعے ہی قائم رہے گا ۔ علامہ طاہر القادری کا لانگ مارچ اتوار کی سہ پہر ماڈل ٹاون سے روانہ ہوا تو ماضی میں جمہوری حکومتوں کے خاتمے کے لئے کی جانے والی ”سازشوں“ کی تاریخ ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں تازہ ہو گئی اور 5 سال قبل آمریت کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والی جمہوریت کو خطرات لاحق نظر آنے لگے مگر حیران کن طورپر لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ جو یقیناً ہزاروں افراد پر مشتمل تھا بغیر کسی پتھراو¿، لاٹھی چارج، توڑ پھوڑ کے پرسکون انداز میں پہنچا۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں علامہ طاہر القادری کے ”لشکر“ کے ڈیرے ڈالتے ہی عوام کے ذہنوں میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران اسی جگہ ہونے والے ہنگاموں کے مناظر پھر تازہ ہو گئے۔ اسلام آباد کی لال مسجد کا وہ سانحہ جس میں بچوں ، بچیوں ، خواتین ، مردوں سمیت درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تازہ ہو گیا۔ مگر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی لانگ مارچ میں نہ پتھر چلا، نہ گولی، لاٹھی چارج ہوا نہ گرفتاریاں اور پاکستان کی سیاسی قوتوں نے نہایت سمجھداری سے کام لیتے ہوئے مسئلے کو سلجھایا۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں، حکومتی اتحادیوں اور اپوزیشن نے اپنے اپنے ”کیمپ“ میں جمہوریت کے لئے ”اکٹھے“ ہو کر یہ پیغام دے دیا کہ اب کسی ”غیر سیاسی ایکٹر“ کی گنجائش نہیں ہے۔ لانگ مارچ سیاسی رہنماو¿ں کو قومی اور فلاحی امور کی طرف توجہ دینے پر غور کا پیغام ضرور دے گیا ہے۔ علامہ طاہر القادری کے جمعرات کی رات لانگ مارچ ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی 5 سالہ جمہوریت کے سر پر لٹکتی تلوار ہٹ گئی اور پاکستان کی جمہوریت جو چار بار ”باوردی حادثات“ سے کئی کئی برسوں کے لئے ”کوما“ میں جا چکی ہے سیاسی ناگہانی حادثے سے بچ گئی اور علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ کے پرامن اختتام کا کریڈٹ پاکستان کی تمام جمہوری طاقتوں کو جاتا ہے۔ یہاں نوازشریف کی رہائش گاہ پر ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کا بھی ذکر ضروری ہے جس کے باعث بھی طاہر القادری کو لچک دکھانا پڑی، تحریک انصاف بھی دھرنے سے دور رہی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...