تحریک طالبان پاکستان کا مستقبل

نومبر2013 کے دس دنوں کے اندر اندر طالبان کے دو اہم ترین رہنماﺅں کی ہلاکت کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ یکم نومبر کو فاٹا میں امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے حکیم اللہ محسود کو مار دیاگیا اسکے دس دن بعد 11نومبر کو پاکستان کے دارالحکومت میں حقانی نیٹ ورک کے اہم رکن /لیڈر نصیر الدین حقانی کو پراسرار حالات میں موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے قتل کر دیا۔ اس نیٹ ورک کے بانی مولانا جلال الدین حقانی کے صاحبزادے تھے‘ انکی والدہ عرب نژاد ہیں اور نیٹ ورک میں نصیر الدین حقانی بیرون ممالک سے فنڈز اکٹھے کرنے کے ذمہ دار تھے۔ امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ عالمی دہشت گردوں کی لسٹ میں ان کا نام نمایاں تھا۔انکے خلیجی ممالک میں بہت رابطے تھے جن کے باعث نیٹ ورک کو خاصی مالی امداد ملتی تھی۔انکی ہلاکت نیٹ ورک کیلئے ہی ہیں پاکستان کیلئے بھی بڑا دھچکا ہے کیونکہ وہ پاکستان میں مارا گیا ہے۔
اسی مہینے 21نومبر کو پاکستان کے بندوبستی علاقے ہنگو میں ڈرون حملے کے ذریعے حقانی نیٹ ورک سے وابستہ پانچ اہم رہنماﺅں کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔ ان میں مولوی احمد جان بھی تھا جو سراجدین حقانی کا قریبی ساتھی اور حقانی نیٹ ورک کا آپریشنل کمانڈر بھی تھا۔
وزیر ستان کے قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے عسکریت پسند گروہوں کے درمیان فکری و انتظامی اختلافات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں ۔ڈنڈے ڈرپا خیل جیسے مضبوط مرکز میں طالبان کے لیڈر حکیم اللہ محسود ار دیگر حقانی لیڈروں کی ہلاکت کے بعد طالبان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان پائے جانیوالے اختلافات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستا ن میں محسوداور غیر محسود قبائل کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی بھی شروع ہو گئی ہے جو تحریک بارے کسی اچھے انجام کی نشاندہی نہیں کر رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ (تحریک طالبان پاکستان کی قیادت )سمجھتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک نے حکیم اللہ محسود کی ڈنڈے ڈرپا خیل میں موجودگی کی اطلاع پاکستان کی آئی ایس آئی کو دی اور انہوں نے امریکیوں کے ذریعے حکیم اللہ محسود کو ہلاک کرایا ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک طالبان نے پاکستان کیساتھ مذاکرات سے صاف انکار کر دیا ہے ۔
سفارتی اور انٹیلی جینس ذرائع کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود اور ان کا گروپ حقانی نیٹ ورک کے پاکستانی آئی ایس آئی کے ساتھ گہرے تعلقات و روابط کو شک کی نظر سے دیکھتاتھا۔ دوسری طرف حقانی نیٹ ورک اپنے لیڈروں کی ہلاکت کے حوالے سے تحریک طالبان کو ذمہ دار سمجھتا ہے جبکہ تحریک طالبان نے ایسے کسی بھی الزام کی تردید کرتے ہوئے اسے قبائلی خاندانی اور عسکری گروپوں کے درمیان اختلافات اور دشمنیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی حکومت پاکستان کیخلاف نفرت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حکومت پاکستان کی مذاکرات کی پیش کش کا خیر مقدم کرنیوالے پنجابی طالبان لیڈر عصمت اللہ معاویہ کو بھی سائیڈ لائن کر دیا ہے۔مئی 2013میں حکیم اللہ محسود کے ڈپٹی ولی الرحمان کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے پہلے تحریک طالبان پاکستان کے دوبڑ ے لیڈر کراچی میں بھتہ خوری کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس سے پہلے 2009 میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک کے نئے لیڈر کے انتخاب کے موقع پر بھی اختلاف اس وقت سامنے آئے جب ولی الرحمان کی بجائے حکیم اللہ محسود کو طالبان کا لیڈر مقرر کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کے سپورٹرز نے ولی الرحمان کے بارے میں آئی ایس آئی کو معلومات فراہم کیں اور اسے ہلاک کروادیا۔دوسری طرف روشن وزیر گروپ کی طرف سے حکیم اللہ محسود کے بارے میں معلومات کی فراہمی اسکی ہلاکت کا با عث بنی۔20نومبر کو شمالی وزیر ستان (میر علی) میں ایک خود کش بم حملے میں سات طالبان کی ہلاکت کو بھی شمالی وزیر ستان (میر علی) میں تحریک طالبان کے ایک ناراض گروپ کی کارستانی کہا جاتا ہے۔ ہلاک ہونیوالوں میں ایک سیف الدین بھی تھا جو ولی الرحمان کے بعد بننے والے گروپ لیڈر خان سعد سجناکا وفادار کمانڈر تھا۔ اس سے پہلے ولی الرحمان کے جانشین کے انتخاب کے وقت بھی تحریک میں اختلافات پید اہو گئے تھے جب خان سعد سجنا کو حکیم اللہ محسود سے مشاورت کے بغیر ولی الرحمان کا جانشین مقرر کر دیا گیا تھا۔ اسکے بعد ملا فضل اللہ کے انتخاب نے گروپ میں اختلافات کی خلیج کو اور بھی گہرا کر دیا۔فضل اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے آخری چار سال افغانستان کے سرحدی علاقوں میں گزارے وہ تحریک میں اختلافات کے بارے میں خاصہ ذکر کرتا تھا خاص طور پر سجنا کے حواریوں کے بارے میں تنقید کرتا تھا۔ فضل اللہ کا ڈپٹی شیخ خالد حقانی بھی جس کا تعلق ضلع سوابی (خیبر پختونخواہ) سے ہے اس وقت تحریک طالبان کی عبوری شوریٰ کا چیف ہے اور غیر محسودہے یہ تحریک طالبان میں پائی جانے والی خلیج کا ایک اور کھلا ثبوت ہے۔
ولی الرحمان اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت ، تحریک طالبان میں اختلافات اور محسود وغیر محسود قبائل کے اختلافات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بیت اللہ محسود کی قیادت میں قائم کی جانے والی تحریک طالبان پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہے۔ بیت اللہ کی موجودگی اور اس کے بعد حکیم اللہ کی قیادت جو ان محسودوں کیلئے وجہ افتخار تھی اور دیگر قبائل کے لوگ شہرت اور داد شجاعت حاصل کرنے کی امید پر اس گروپ میں شامل ہوتے چلے جاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔قاری حسین محسود (خود کش بمبار تیار کرنے کا ماہر) قاری ظفر تحریک طالبان کا لوکل کمانڈر اور مولوی نذیر (آئی ایس آئی کا رابطہ کار) جسے قائدین کی ہلاکت کے بعد طالبان اور دیگر گروپوں کیلئے نئے بمبار ریکروٹس کی فراہمی مشکل ہو چکی ہے۔کسی بھی تحریک ، تنظیم یا گروپ میں فکری یا انتظامی اختلافات ، اسکی کمزوری کا باعث بنتے ہیں اور پھر جب یہ اختلافات قتل و غارت گری میں تبدیل ہو جائیں تو ایسی تنظیموں کا مستبقل اور بھی مخدوش ہو جاتا ہے۔دوسری طرف گزرے چند سالوں کے دوران مساجد، امام بارگاہوں ، دیگر عبادت گاہوں اور سکولوںپر خود کش حملوں کے باعث تحریک طالبان پاکستان کی عوامی پذیرائی میں بھی خاصی کمی واقع ہو چکی ہے۔ پاکستان میں تحریک طالبان کیخلاف اٹھنے والی آوازیں خاصی بلند ہوتی جا رہی ہیں ۔ ہمارا صاحب الرائے فکر طبقہ واضح طور پر تقسیم ہو چکا ہے ایک گروہ انہیں مکمل طور پر غلط اور گمراہ قرار دے کر فوجی ایکشن کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹانے کا داعی ہے جبکہ ان کا حمایتی طبقہ بھی اب انکی کھل کر حمایت کرنے سے گریزاں ہو چکا ہے ۔ایسے حالات میں تحریک طالبان پر ملٹری ایکشن شاید اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن