بلدیاتی انتخابات کے غیر معینہ التواءسے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بہت یاد آئے۔ وہ حکمرانوں کے مکروفن سے پوری طرح آگاہ تھے اور آئین کی عملداری کے لیے عدالتی تلوار کو نیام سے باہر رکھتے تھے تاکہ حکومت آئین اور قانون کے خوف میں مبتلا رہے۔ چوہدری صاحب کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ ادارے کے فعال اور متحرک کردار میں اس کا سربراہ کس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ چوہدری صاحب اگر چند ماہ اور اپنے منصب پر فائز رہتے تو پاکستان کے تمام صوبوں میں بلدیاتی انتخابات وقت پر ہوجاتے۔ موجودہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سیاسی ڈرامہ بازوں کے ساتھ نرم سلوک کرکے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو ہی مشکوک بنادیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے الیکشن کمشن کو پرانا شیڈول منسوخ کرنے اور نیا انتخابی شیڈول جاری کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ہمارے محترم اور معزز جج جانتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کا کردار شرمناک رہا ہے۔ اس پس منظر میں سپریم کورٹ کا فرض تھا کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور دفاع کے لیے حکومت پر دباﺅ برقرار رکھتی اور اس سے نیا شیڈول طلب کرتی مگر عدلیہ نے غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کی جانب سے نئے انتخابی شیڈول کے اعلان کیلئے مدت کا تعین بھی نہیں کیا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں مختلف حیلے بہانوں سے انتخابات ٹالتی رہیں گی۔
مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد صوبائی حکومتوں کی آئینی ذمے داری ہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) نے گزشتہ پانچ سال کے دوران آئین سے انحراف کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات سے گریز کیا اور عوام کو ان کے بنیادی حق سے محروم کیا۔ آئین اور قانون کے ماہرین بتائیں کہ کیا یہ اقدام حلف کی خلاف ورزی نہیں ہے اور کیا سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے سابق وزرائے اعلیٰ پر آئین کے آرٹیکل چھ کا اطلاق نہیں ہوتا؟۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد سپریم کورٹ نے نو منتخب شدہ صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا۔ سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود سندھ اور پنجاب کی حکومتیں تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرتی رہیں۔ دونوں نے بلدیاتی انتخابات کو تماشہ بنا دیا۔ تین بار انتخابی شیڈول تبدیل کیا گیا۔ نومبر 2013ءمیں قومی اسمبلی نے متفقہ قرارداد منظور کرکے عدلیہ کو بالواسطہ تنقید کا نشانہ بنایا اور صوبائی حکومتوں کے تاخیری حربوں کو سپورٹ کیا۔ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے متفقہ قرارداد منظور کرکے مردم شماری کے بعد انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کے مرکزی قائدین عوام میں بے نقاب ہوچکے ہیں وہ اشرافیہ کی جمہوریت کے قائل ہیں اور عوام کو اقتدار میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ اس ضمن میں جرنیل حکمران سیاستدانوں سے بہتر رہے جو ”نظریہ ضرورت“ کے تحت باقاعدگی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کراتے رہے۔
دنیا کے جمہوری سیاسی نظاموں میں مقامی حکومتوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ حقیقی جمہوریتوں میں عوام ریاست کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مقامی حکومتیں قائم کی جاتی ہیں۔ عوام کے نوے فیصد مسائل مقامی سطح پر حل ہوجاتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت میں مقامی حکومتوں کا مو¿ثر، فعال اور متحرک نظام موجود ہے۔ سپریم کورٹ کے نئے حکم کے بعد الیکشن کمشن نے انتخابی شیڈول منسوخ کردئیے ہیں۔ ووٹوں کے اندراج اور تبادلوں پر پابندی اُٹھالی گئی ہے۔ انتخابی اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی منسوخ کردئیے گئے ہیں۔ ان کی فیس واپس نہیں ہو گی نئے انتخابی شیڈول کے بعد پرانے اُمیدواروں سے نئی فیس نہیں لی جائے گی۔البتہ جو اُمیدوار نئے شیڈول کے بعد انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ ترک کردیں گے وہ اپنی فیسوں سے محروم ہوجائیں گے جو عدل و انصاف کے منافی ہے۔ افسوس الیکشن کمشن آئینی اختیار کے باوجود عوام کی بجائے حکومتوں کا ہم نوا بن چکا ہے۔
بلوچستان دہشت گردی کے باوجود بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں دوسرے صوبوں سے بازی لے گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کے سیاستدان جمہوری اصولوں اور قدروں کے امین ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں نوے روز کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ دو سو دس روز گزر چکے ابھی تک تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکی بلکہ سندھ اور پنجاب کی پیروی کرتے ہوئے خیبرپختونخواہ کی حکومت نے الیکشن کمشن کو انتخابی شیڈول تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے جبکہ الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عمران خان بلند بانگ دعووں کے باوجود ابھی تک مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ان کو شاید اندازہ نہیں کہ ان کے اہم حامی بھی تحریک انصاف کی کارکردگی سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کم و بیش ایک سال کے لیے اپنے منصب پر فائز رہیں گے۔ وہ اگر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ کراسکے تو پاکستان کے عوام ان کے بارے میں شاکی رہیں گے۔ سیاستدان بنیادی جمہوریت کو زندہ درگور کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ کسی نرمی کے مستحق نہیں ہیں۔افسوس یہ ہے کہ عوام بھی اپنے حق کے لیے ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ) میں ٹرک سکول وین سے ٹکرا گیا اس المناک حادثے میں سترہ بچے، 2 ٹیچر اور ڈرائیور ہلاک ہوگئے۔ بچوں کی عمریں 5 سے 16 سال تھیں۔ حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھاگئے۔ صدمے سے ایک ماں جان کی بازی ہار گئی۔ حادثے تو دنیا کے ہر ملک میں ہوتے ہیں مگر جس تعداد میں حادثے پاکستان میں ہوتے ہیں اس کا مقابلہ کسی اور ملک سے نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں چونکہ جزا اور سزا کا مو¿ثر نظام نہیں ہے۔ ریاستی نظام فرسودہ ہوچکا ہے۔ آئین اور قانون کا کسی کو خوف نہیں ہے اس لیے ہر شخص آسانی سے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرلیتا ہے۔ ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ہوشربا کرپشن نے ریاستی نظام کو سوالیہ نشان بنا کررکھ دیا ہے۔ حادثات کے بعد مکمل تفتیش کرنے اور ذمے داروں کو سزا دینے کی بجائے مذمتی بیانات جاری کرکے اور وارثوں کو چند لاکھ معاوضہ دے کر معاملہ رفع دفع کردیا جاتا ہے۔ سڑکوں پر ایسی کاریں، بسیں اور ٹرک چلائے جارہے ہیں جو ناکارہ اور فرسودہ ہوچکے ہیں اور کسی وقت بھی انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا محکمہ بھی دوسرے محکموں کی طرح غیر فعال ہوچکا ہے۔ قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ سندھ کے بوڑھے وزیراعلیٰ سے یہ توقع کیسے کی جائے کہ وہ اس اندوہناک حادثے کی مکمل انکوائری کرائیں گے اور ان اسباب کی روک تھام کریں گے جو المناک حادثوں کو جنم دیتے ہیں اور ماﺅں سے ان کے لخت جگر چھین لیتے ہیں۔جو حکمران لوٹ مار میں مصروف ہوں ان سے انسانی جانوں کے تحفظ کی توقع کیسے کی جائے۔