بنگلہ دیش کے یکطرفہ انتخابات ۔ پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ

میں نے دسمبر 1971ءسے پہلے جب سقوطِ ڈھاکہ کا المناک واقعہ پیش آیا اور قائداعظم کے متحدہ پاکستان کو بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی فوجی سرپرستی میں شیخ مجیب الرحمان کی مکتی باہنی نے توڑ دیا --- مشرقی پاکستان کو نہیں دیکھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ میرے وطن کے سنہرے ریشے کی یہ سرزمین میرے دل میں ہمیشہ آباد رہی اور جب دسمبر 1971ءکے وسط میں ”شیر دل“ جنرل نیازی بھارتی جرنیل اروڑا کے سامنے پلٹن میدان ڈھاکہ میں قبول ”قبولِ شکست“ کی دستاویز پر دستخط کر رہا تھا تو مغربی پاکستان کے محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ میرا دل بھی خون کے آنسو رو رہا تھا کہ جس شہر (ڈھاکہ) میں 1906ءمیں مسلم لیگ کی بنیاد اور پاکستان کے تصور کیلئے دو قومی نظریے کی اساس رکھی گئی تھی، اسی شہر میں پاکستان کے متحدہ وجود کو دونیم کیا جا رہا تھا، بنگلہ دیش کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے چالیس سے زیادہ برس ہو گئے ہیں لیکن اسکی مشرقی پاکستان کی صورت میرے دل میں اب بھی تر و تازگی سے آباد ہے اور بنگلہ دیش کی بہتری اور بہبود کی خبر آئے تو میں خوشی سے جھوم اُٹھتا ہوں، بُری خبر آئے تو دل ملال گزیدہ ہو جاتا ہے کہ میرا سابقہ آدھا وطن جسے قائداعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر برطانوی اور ہندو سامراج سے آزاد کرایا تھا، اب ابتلا میں مبتلا ہے۔ بلاشبہ بنگلہ دیش اب ایک آزاد ملک ہے منقسم پاکستان کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں منعقدہ اسلامی کانفرنس میں اسے تسلیم کر لیا تھا، اقوام متحدہ میں اس کو الگ نشست دے دی گئی تھی لیکن مغربی پاکستان کے ان باشندوں کو جنہوں نے پاکستان کو بنتے دیکھا تو وہ اپنی جذباتی کیفیت کو کیسے تبدیل کر سکتے ہیں؟ یہ جملے لکھ رہا ہوں تو میں درد میں مبتلا ہوں۔
میری یہ تمہید طویل ہے لیکن بے معنی نہیں، وجہ یہ کہ اتوار 5 جنوری کو وزیراعظم حسینہ واجد شیخ نے بنگلہ دیش میں عام انتخابات کرائے تو ان انتخابات کا ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں --- بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی جس کی سربراہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیائ) اور جاتیہ پارٹی (جس کے سربراہ سابق فوجی صدر حسین محمد ارشاد ہیں) نے ہی نہیں بلکہ بہت سی چھوٹی سیاسی پارٹیوں نے بھی بائیکاٹ کا انتخابات کر رکھا تھا۔ یہ سب پارٹیاں بی این پی کی لیڈر خالدہ ضیا کی قیادت میں مطالبہ کر رہی تھیں کہ شفاف، صاف ستھرے اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کیلئے وزیراعظم حسینہ واجد راج سنگھاسن سے اُتریں، ایک غیر جانبدار نگران حکومت قائم کریں جو تین ماہ کے اندر پوری قوم کو قابل قبول غیر جانبدار انتخابات کرائے۔ بنگلہ دیش میں عام انتخابات میں شفافیت کا اعتماد قائم کرنے کیلئے نگران حکومت کے زیر اہتمام انتخابات کرانے کا قانون موجود تھا اور اس پر عملدرآمد بھی ہوتا رہا (اہم بات یہ ہے کہ انتخابات کیلئے نگران حکومت قائم کرنے اور برسر اقتدار حکومت کے مستعفی ہو جانے کا اقدام --- پاکستان نے بنگلہ دیش سے ہی لیا تھا۔ چنانچہ گزشتہ انتخابات کے وقت پی پی پی کی مخلوط حکومت اپنی پانچ سال کی میعاد پوری ہو جانے پر، تحلیل ہو گئی اور انتخابات نگران حکومت نے کرائے تھے) لیکن وزیراعظم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں یہ قانون تبدیل کر دیا تھا، حزبِ اختلاف نے احتجاج کیا تو اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور 5 جنوری کو اپنی حکومت کے زیر انتظام انتخابات کرائے تو بنگلہ دیش کو حزب اختلاف نے ان میں حصہ نہیں لیا۔ خالدہ ضیا نے ان انتخابات کو ”ڈھونگ“ اور عوام کیساتھ سنگین مذاق قرار دیا۔
بنگلہ دیش میں ہولناک اور انسان کشی کا سلسلہ تو فروری 2013ءسے ہی شروع ہو گیا تھا جب جماعت اسلامی کے ایک رہنما عبدالقادر مُلا کو 1971ءکے مبینہ جرائم پر سزا سُنائی تھی۔ وزیراعظم حسینہ واجد، جو اپنی حکومت کی ڈائریکشن اور ڈکٹیشن بھارت سے لینے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں بدنام ہیں ان احتجاجی مظاہروں پر قابو نہ پا سکیں اور انتہا یہ کہ عام انتخابات سے چند روز قبل ایک عدالتی فیصلے کے تحت عبدالقادر مُلا کو پھانسی دے دی جبکہ 1971ءکے جنگی ملزموں کی عام معافی کا اعلان ہو چکا تھا اور حسینہ واجد نے بھی اپنے سابقہ ادوارِ حکومت میں اس دور کے کسی ملزم پر مقدمہ نہیں چلایا۔ دوسری طرف 1988ءمیں جنرل حسین محمد ارشاد نے اسلام کو آئین میں سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا تھا لیکن بھارت کو یہ اقدام پسند نہ آیا کیونکہ وہ بنگلہ دیش کو دو قومی نظریے سے الگ کرنے کا خواہاں تھا اور اسکے دینی امیج کو مٹا کر سیکولر چہرہ نمایاں کرنا چاہتا تھا۔ عبدالقادر مُلا کی پھانسی بھی انکی اسلامی شناخت کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے اور حسینہ واجد نے اس بھیانک اقدام سے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کی جس کا اپنا سیکولر چہرہ داغدار ہے اور اب گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا مجرم مودی بھارت کی ہندوتوا شناخت کو نمایاں کرنے کیلئے آئندہ انتخابات میں بی جے پی کا وزیراعظم نامزد ہو چکا ہے۔
1973ءسے لے کر 2014ءتک گیارہ مرتبہ عام انتخابات ہو چکے ہیں۔ 1973ءمیں ووٹ ڈالنے کی شرح 55 فیصد تھی۔ ووٹوں کا سب سے زیادہ تناسب 2008ءکے عام انتخابات میں سامنے یا جو 80 فیصد تھا۔ 1996ءمیں حزب اختلاف کی سب جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ان میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ بھی شامل تھی چنانچہ خالد ضیا کی بی این پی نے بنگلہ دیش اسمبلی کی سب نشستیں جن کی تعداد 300 ہے جیت لیں لیکن بائیکاٹ کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کی شرح صرف 21 فیصد تھی۔ دوبارہ انتخابات ہوئے یہ شرح 75 فیصد ہو گئی اور حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے فتح حاصل کر لی۔ 5 جنوری 2014ءکے انتخابات میں ”ٹرن آﺅٹ“ 22 فیصد بتایا گیا ہے جبکہ 154 سیٹوں پر کسی نے انتخاب نہیں لڑا۔ ایک سو سے زیادہ پولنگ سٹیشنوں پر بیلٹ پیپروں سے بھرے ہوئے ڈبے جلا دئیے گئے۔ حزب اختلاف کے 1200 سے زیادہ فعال کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ قیام امن کیلئے 50 ہزار فوجی متعین کئے گئے۔ سکیورٹی پر دیگر اداروں کے تین لاکھ پچھتر ہزار افراد حاضر تھے لیکن امن قائم نہ رکھا جا سکا اور سینکڑوں عام آدمی انتخابات کیخلاف ہنگاموں میں زخمی ہوئے اور بہت سے موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ عوامی لیگ نے 80 فیصد کے لگ بھگ (240) نشستیں جیت لینے کا اعلان کیا۔ اے ایف پی کی رپورٹ کیمطابق 300 ارکان کی اسمبلی میں سے 248 ارکان سے بدھ 9 جنوری کو پارلیمان کے ترجمان زین العابدین نے حلف لیا۔ ان انتخابات کے نتائج کو بھارت کے سوا کسی اور ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ امریکہ نے نتائج کی عدم قبولیت کےساتھ حسینہ واجد کو فوری طور پر خالدہ سے مذاکرات کا مشورہ دیا۔ بنگلہ دیش کی ان دو سرکردہ سیاسی خواتین نے فوجی حکومت کیخلاف جمہوریت کی جنگ لڑی تھی لیکن فوجی آمر کو اقتدار سے محروم کرنے کے بعد دونوں میں جنگِ اقتدار چھڑ گئی جو اب تک جاری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سابق فوجی صدر حسین محمد ارشاد کی جاتیہ پارٹی اب بی این پی کی حمایت کر رہی ہے اور مظاہروں میں شامل ہے۔
بنگلہ دیش کے ان واقعات پر بحرانوں میں پھنسے ہوئے پاکستان کے عوام دُکھی ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ جب پاکستان صدر زرداری کے دور میں بد حکومتی کا شکار تھا تو بہت سے صنعتکار اپنا سرمایہ لیکر بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔ اس ملک کی تیار پارچات کی صنعت کو پاکستانی سرمایہ کاروں نے سہارا دیا، بھارت اس پر بھی تلملا رہا تھا اور بنگلہ دیش کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنے سے قاصر تھا۔ اب عوامی لیگ بھارت کے مقاصد کی نگہبانی کر رہی ہے تو پاکستانی سرمایہ کار عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایسے میں میاں نواز شریف کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ داخلی حالات اور معیشت کی بدحالی کو سنواریں تاکہ بنگلہ دیش میں سرمایہ لگانے والے پاکستانی صنعتکار واپس وطن آ جائیں اور اپنے قیمتی سرمائے سے پاکستان کی معیشت کو بحال کریں۔ 5 جنوری کے بنگلہ دیش کے انتخابات کے نتائج پاکستان کے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ فراہم کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن