ہر روز خبریں آتی ہیں کہ ’’ہوائی اڈوں اور موٹر وے اور عام راستوں کو دھُند نے اپنی لپیٹ میں لے لِیا ہے جِس کی وجہ سے پروازیں منسوخ اور ٹریفک بند کرنا پڑی ہے‘‘۔ اور جب دُھند کم یا ختم ہو جائے تو پروازوں اور ٹریفک کے بحال ہونے کی خبریں آتی ہیں۔بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تو سرکاری طور پر بندوبست کِیا جاتا ہے لیکن ’’دُھند‘‘ قُدرت کا کھیل ہے۔بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی طرح دُھند بھی اندھا دُھند ہوتی ہے۔ بے سوچے سمجھے بے دھڑک بے حساب اندھیرے اور بدنظمی کو’’اندھا دُھند‘‘ کہا جاتا ہے۔ دُھند کو انگریزی میں"Fog" کہا جاتا ہے اور"In a Fog" کا مطلب ہے حیرانی پریشانی اور اُلجھن۔ پاکستان کے عوام ہر دَور میں اِسی کیفیت میں رہے ہیں۔ اب تو بہت ہی زیادہ ہیں۔ اُن کے لئے تو ہر شعبے میں دُھند ہی دُھند ہے اُستاد تسلیم ؔ نے کہا تھا؎
’’گیسوئے یار نے جِس دم سے چڑھائی کی ہے
کِشورِ دِل میں وہ اندھا دُھند رہا کرتا ہے‘‘
اندھا دُھند۔ چلنے ، بولنے ، سونے، جاگنے، گھومنے، پھرنے میں ہر کوئی آزاد ہے اور طالبان اور دوسرے دہشت گرد تو اپنی آزادی کو مکمل طور پر انجوائے کر رہے ہیں۔ پھر مختلف سیاسی اورمذہبی قائدین اپنا’’کردار‘‘۔ کیوں نہ ادا کریں؟۔ واحد سُپر پاور تو خود کو’’احکم اُلحاکمِین‘‘ سمجھتی ہے۔دُھند ہی دُھند میں اندھا دُھند کیا کیا ہو رہا ہے؟۔دیکھتے ہیں!۔
’’تیرے جیہے پُتّ جمّن مانواں‘‘
خبر ہے کہ’’ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لئے دی جانے والی سالانہ 3کروڑ 3لاکھ ڈالر کی رقم کو ڈاکٹر شکیل احمد آفریدی کی رہائی سے مشروط کر دِیا ہے‘‘۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی پر الزام ہے کہ اُس نے اسامہ بن لادن کی شناخت اور اسلام آباد میں اُس کی موجودگی کی تصدیق کے لئے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی پشاور جیل میں قید ہے۔ امریکہ اُس کی رہائی کے لئے کئی بار دبائو ڈال چکا ہے لیکن وزارتِ خارجہ کا موقفء یہی رہا ہے کہ۔’’فیصلہ عدالت کرے گی‘‘۔ڈاکٹر شکیل آفریدی پختون ہیں لیکن عام پختونوں سے مختلف۔ اُن کی خدمت میںایک پنجابی فلمی گیت کا ایک مصرع ہی پیش کِیا جا سکتا ہے کہ۔۔
’’تیرے جیہے پُتّ جمّن مانواں کِدھرے کِدھرے کوئی‘‘
تبلیغی جماعت کو بھی نہیںچھوڑا؟
تبلیغی جماعت والے سیدھے سادے مسلمان ہیں۔ کسی مسلک کے مسلمانوں کے خلاف کُفر کا فتویٰ نہیں دیتے۔ نماز روزہ اور دوسرے ارکانِ اسلام کی تلقین اور تبلیغ کرتے ہیں۔ الیکشن میں حِصّہ نہیں لیتے اور نہ اقتدار میں حِصّہ مانگتے ہیں۔ پھر بھی دہشت گردوں نے انہیں بھی نہیں چھوڑا۔ پشاور کے تبلیغی مرکز میں 10نمازیوں کو شہید اور 60کو زخمی کرتے وقت سعودی مفتیء اعظم کا وہ فتویٰ بھی نظر انداز کر دیا گیا کہ۔ ’’خود کُش حملہ آوروں کو جہنم میں جانے کی جلدی ہے‘‘۔ یہ جلدی اُس وقت کی گئی جب وزیرِ اعظم نواز شریف نے یہ اعلان کِیا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لئے عمران خان ، مولانا سمیع اُلحق، مولانا فضل الرحمن اور سیّد منور حسن سے رابطہ کریں گے۔ عمران خان کا تعلق پنجاب سے ہے اور سیّد منور حسن کا کراچی سے۔ دونوں کی خیبر پختونخوا میں حکومت ہے۔مولانا سمیع اُلحق اور مولانا فضل الرحمن تو خیبر پختونخوا کی۔ ’’جم پل‘‘۔ ہیں۔ یہ چاروں قائدین مِل کر سوچیں کہ اُن کے’’غازی(طالبان) کیا کر رہے ہیں‘‘؟۔
’’صادقین کی جعلی تصویریں‘‘
ایک پرانی بات۔ خبرِ کی صورت میں منظرِ عام پر آئی ہے کہ ’’22جون 2013ء کو وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں پاکستان کے نامور مصّور جنابِ صادقین (مرحوم) کی تصویروں کی نمائش کا اِفتتاح کِیا تھا ،وہ تصویریں جعلی تھیں‘‘۔ یعنی وہ جنابِ صادقین کا ’’ ہُنر‘‘ نہیں تھا ،بلکہ کسی جعل ساز کا’’ کمالِ فن‘‘ تھا ‘‘۔ نمائش کے افتتاح کے موقع پر (اُن دِنوں) چیف الیکشن کمشنر جناب فخر اُلدین جی ابراہیم اور علّامہ اقبال ؒ کی بہو جسٹس (ر) محترمہ ناصرہ اقبال بھی موجود تھیں جنہوں نے اپنی نظم ’’ مصور‘‘ میں کہا تھا ؎
’’ گراں ہے چشم ِ بِینا دِیدہ وَر پر
جہاں بِینی سے کیا گزری خبر پر‘‘
خادمِ اعلیٰ پنجاب بے قصور ہیں۔ اگر اُنہیں معلوم ہو تا کہ نمائش میں سجائی گئی تصویریں جنابِ صادقین کی ’’محنت شاقہ‘‘کے بجائے کسی جعل ساز کی ’’ محنتِ حرافہ‘‘ کا نتیجہ ہیں تو وہ اپنی تقریر اورحبیب جالب ؔ مرحوم کے اشعار کسی دوسری تقریب کے لئے اُٹھا رکھتے ۔اُن کی چشمِ بِینا دیدہ وری اور جہاں بِینی کے باوجود ’’ کیا گُزری خبر پر؟‘‘ موضوع بن گئی ۔پتہ چلا کہ تصویروں کی نمائش کا منتظم تو اپنا کام دِکھا کر(یا میاں صاحب سے اپنا کوئی کام نکلواکر ) مُلک سے باہر جا چکا ہے۔ اب وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ڈینگی کا پیچھا کرنے کے بجائے ’’چراغِ رُخِ زیبا لے کر‘‘ جعل ساز کو ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑے ہوں۔ بہر حال اِس بات کی چھان بِین تو ضروری ہے کہ وہ اُن کا کون سا’’ گوہر یک دانہ‘‘(مصاحب) ہے کہ جِس نے جنابِ صادقین کی تصویروں کے جعل ساز کوخادمِ اعلیٰ سے مُتعارف کرایا؟۔ ویسے صادقین کی تصویروں کا پتہ نہیں چلا اصلی ہیں یا نقلی، نمائش لگانے والے کا ہی قصور نہیں، اسے بھی پتہ نہیں ہوگا اصلی یا نقلی؟
انی، زبان ہے تیری!‘‘
جناب پرویز مشرف کے وکیل صاحبزادہ احمد ضا قصوری نے 16جنوری کو غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا کہ ’’وزیرِ اعظم نواز شریف شکست خوردہ انسان ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری مُتعصب شخص ہیں۔اکرم شیخ ایڈووکیٹ "Prosecutor"۔(وکیلِ استغاثہ) نہیں "Persecutor"(سِتم گر) ہیں‘‘۔ قصوری صاحب نے صحافیوں کو لفافہ جرنلزم کرنے والے اور بھارت کے ایجنٹس قرار دے کر چار بار "Shame on you" کہا۔ کسی بھی صحافی نے"Same to you" نہیں کہا البتہ اُنہوں نے وُکلاء کی تنظیموں سے قصوری صاحب کی شکایت کرنے کا اعلان کر دِیا۔ شاعرِ سیاست کہتے ہیں کہ
’’کِتنی اُونچی اُڑان ہے تیری
بد زبانی زبان ہے تیری‘‘