پاکستان کا ہر سپاہی اپنے ملک میں جینا اور مرنا چاہتا ہے اور شاید یہی جذبہ حب الوطنی سابق جرنیل پرویز مشرف کو پاکستان واپس لے آیا۔جنرل صاحب کو اب ہر مشکل اور بیماری کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے،شہادت نصیب نہ ہو سکی اور نہ ہی مجاہد و غازی بن سکے البتہ وطن عزیز میں جینے اور مرنے کی خواہش تو پوری کر سکتے ہیں۔یہ بات مشرف کے وکلاءاور معالجوں کو بھی سمجھ لینی چاہئے کہ مشرف ایک حادثاتی سیاستدان تھے مگر ان کی اصل پہچان پاک وطن کی خاکی وردی ہے ۔اول تو پرویز مشرف جیسے تندرست اور زندہ دل انسان گھبرایا نہیں کرتے اور اگر بیمار ہو بھی جائیں تو حیرانی کی بات نہیں ،انسان جب سترسال کے قریب پہنچ جائے تو کئی طرح کے امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر اس عمر میں عارضہ قلب عام مرض سمجھا جاتا ہے۔سگریٹ نوشی اور ”مشروبات“ سے پرہیز کیا جائے اور نماز روزے کی طرف دھیان دیا جائے تو اللہ سبحان تعالیٰ ضرور شفاءدیں گے۔موت سے فرار موت کا حل نہیں،مقدمات کا مقابلہ کریں ،بے گناہ ہیں تو سولی پر نہیں چڑھائے جائیں گے اور مجرم ہیں تو انہیں کوئی بھی نہیں بچائے گا۔دنیا میں سزا اگلی دنیا کے عذاب سے نجات دلا سکتی ہے وگرنہ اگلی دنیا کا حساب اس دنیا سے کئی گنا زیادہ دردناک ہے۔ سابق صدر کے ذاتی معالج ڈاکٹر ہاشمی نے مشرف کی فیملی کو خط لکھا ہے جس میں مشرف کو فوری طور پر امریکہ بھجوانے کی تجویز دی ہے۔سابق جنرل پرویز مشرف ایک نڈر کمانڈر ہیں،کسی سے نہیں ڈرتے،اگر ڈرتے تو پاکستان نہ آتے،اور اب جبکہ یہ حماقت کر چکے ہیں،انہیں اپنی عزت نفس اور وردی کے وقار کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ایک فوجی کی زندگی میں جینے مرنے کے لئے اس کے وطن سے بہتر کوئی مقام نہیں ،ایک جرنیل کو وطن عزیز کی مٹی نصیب ہو جائے اس سے زیادہ اس کی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے ۔ موت بر حق ہے مگر انسان کی کوشش ہو نی چاہئے کہ وہ اس حال جان دے کہ لوگ اسے اچھے لفظوں سے یاد رکھ سکیں۔چودھری بردران نے کہا کہ مشرف پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا توان کے سر بھی حاضر ہیں ،ان تمام لوگوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے جو مشرف حکومت کا حصہ رہے ہیں۔چوھدری برادران کے بیان میں وزن ہے گو کہ انہوں نے یہ بات مشرف کی وفاداری اور نواز حکومت کو نیچا دکھانے کے لئے کہی ہے ۔ مشرف نے چودھری برادران کے متعلق بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ وہ ان کے مشیر اورہمراز تھے۔ نومبر 2010 میں ایک بار جب پرویز مشرف امریکہ آئے تو انہوں نے واشنگٹن میں اپنی جماعت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این آر او جاری کرنے کا فیصلہ ان کے دور حکومت کا سب سے غلط فیصلہ تھا اور اس فیصلے کا مشورہ دینے والے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی تھے۔چودھری برادران کی بات مان کر دو دفعہ بے نظیر سے ملاقات اور این آر او کے غلط فیصلے سے ملک میں شدید افراتفری پھیلی۔مشرف نے کہا کہ چودھری برادران نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ اگر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی شرط کا فیصلہ واپس لیا گیا تو پھر ہماری شکست یقینی ہے ۔بقول مشرف چودھری برادران نے ان سے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں جب نواب اکبر بگتی نے فوجیوں پر راکٹ حملے شروع کروائے تو ان کا جواب دینا ضروری تھا۔پرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور ان تمام لوگوں کا بھی احتساب کیا جائے جو ”این آر او اور ڈیل ڈیل“ کھیلتے چلے آرہے ہیں۔امریکی مبصرین کی نظر میں مشرف ایک ایسے وقت میں پاکستان لوٹے ہیں جبکہ پاکستان ایک نئے جمہوری دور سے گزر رہاہے ،پرویز مشرف کی وطن واپسی کو”بُرا شگون“ سے تعبیر کیا گیا۔مشرف کے پاس نہ کوئی سیاسی جماعت ہے،نہ کوئی سیاسی ڈھانچہ،نہ ہی پرانے حواریوں کا ساتھ اور نہ ووٹروں کی تسلی بخش تعداد ہے جبکہ قتل کئے جانے کے امکانا ت بھی موجود ہیں،اس سب کے باوجود مشرف کی وطن واپسی ایک معمہ ہے۔اور اب مشرف کے یہ حالات ہو گئے ہیںکہ موصوف قاتلانہ حملوں کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں تو لوگ نہیں مانتے اور عارضہ قلب کا دعویٰ کرتے تو لوگ ہنستے ہیں۔ مشرف کی کسی شکایت اور بیان پر لوگوں کو اعتبار نہیں رہا۔انسان اپنی زندگی میں اتنی غلطیاں لکھے کہ انہیںمٹاتے مٹاتے ربڑ ختم نہ ہو جائے۔ہم بہت پہلے لکھ چکے ہیں اور آج پھر لکھے دیتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو فوجی آمروں اور جمہوری لیڈروں کو راستے سے ہٹانے کے لئے پاکستان کی سر زمین کا انتخاب بہترین ہے۔بیرونی طاقتیں ”وفاداروں“ کو مارنے کے لئے ان کا وطن منتخب کرتی ہیں ۔یہ وفادار گھوڑے جلا وطنی کے لئے بھلے کسی ملک کا انتخاب کرلیں مگر ان کی قبروں کو صرف اپنے وطن کی مٹی پناہ دیتی ہے۔اقتدار اور قبرکے لئے وطن لوٹ آتے ہیں اورجان و مال کے لئے بیرون ملک کو وطن بنا لیتے ہیں۔سابق جرنیل پرویز مشرف بھی بیرونی صفوں کے اتحادی رہے ہیں ۔ سابق جرنیل پرویز مشرف اپنے خلاف ہر سازش کو سمجھ رہے ہیں ۔وطن واپسی ان کا انتخاب نہیں اور اب وطن سے فرار ان کے اختیار میں نہیں۔