وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیرصدارت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پرسیاسی جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے درمیان مکالمے بازی نے دلچسپ صورت حال کئے رکھی ایسا دکھائی دیتا تھا پرویز خٹک ’’ مغربی روٹ‘‘ کے حوالے سے تحفظات کے اظہارکے نتیجے میں اپنے مطالبات منوا کر ہی اٹھیں گے اس دوران ان کی وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقیات احسن اقبال اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے بھی صنعتی زون بنانے اور ریلوے لائن بچھانے پر تکرار ہوتی رہی جب کہ وزیر اعظم نے بھی پرویز خٹک کی ہر بات تحمل سے سننے کا تہیہ کر رکھا تھا پرویز خٹک کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ بھی اپنے دل کا غبار اتار کرہی جائیں گے لہذا ان کی بات کی تان مغربی روٹ پر ٹوٹ رہی تھی جب کہ وزیر اعظم بھی ان کے ہر سوال کا برجستہ جواب دے کر ان کے گول کرنے کی کوشش کو ناکام بنا رہے تھے گول ناکام کرنے میں وزیر اعظم کی ٹیم بھی ان کی مستعدی سے مدد کر رہی تھی ۔ جب پرویز خٹک نے کہا کہ ’’ مغربی روٹ پر صرف سڑک ہی کیوں بنائی جا رہی ہے صنعتی زون کیوں نہیں بنائے جا رہے ؟ وزیر اعظم گویا ہوئے ’ خٹک صاحب پہلے صنعتیں لگائی جائیں اور سڑک بعد میں بنائی جائے تو پھر صنعتیں کیسے چلیں گی؟۔ ایک زمانے میں آپ لوگ موٹر وے کی مخالفت کرتے تھے آج آپ کہہ رہے ہیں کہ موٹر وے بنائی جائے ۔ وزیر اعظم نے پرویز خٹک کو ناک آئوٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مسلسل حملہ آور ہو رہے تھے، انہوں نے پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں پر اعتراض کر دیا اور کہا کہ ’’ تمام ترقیاتی کام پنجاب میں ہی ہورہے ہیں ہمیں نظر انداز کیا جا رہا ہے جس پر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاززاحسن بول اٹھے ’’ پرویز خٹک صاحب آئین میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبے خود اپنے ترقیاتی منصوبے بنا سکتے ہیں آپ بھی ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں اگر آپ نے کوئی منصوبہ بنایا ہے اور وفاقی حکومت نے تعاون نہیں کیا تو بتائیں دوسرے صوبوں کے ترقیاتی کاموں پر اعتراض نہ کریں ۔پرویز خٹک نے ایک اور وار کیا اور کہا کہ ’’جناب وزیر اعظم ! پاک چین اقتصادی راہداری کی منصوبہ بندی میں حکومت خیبر پختونخوا کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے انہیں یہ کہہ کر کہ ’’ آپ کی حکومت وفاقی حکومت کے خطوط کا جواب ہی نہیں دیتی ‘‘ لا جواب کر دیا وفاقی سیکرٹری مواصلات اور چیئرمین این ایچ اے شاہد اشرف تارڑ نے کہا کہ ’’گزشتہ سال نومبر میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی موجودگی میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخواہ سے کہا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں جن منصوبوں پر کام شرو ع کرنا ہے ان کیلئے صوبائی حکومت زمین لے کر دے جس پر ا بھی تک صوبائی حکومت نے کوئی پیش رفت نہیں کی‘‘۔ ممکن تھا مشاورتی اجلاس میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے پی کے درمیان مکالمہ بازی طوالت پکڑتی ،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی نے کہاکہ’’ جناب وزیر اعظم اس معاملہ میں احسن اقبال سے ہمارے بعض دوست مطمئن نہیں ہیں اور ان کو مطمئن کرنا احسن اقبال کے بس کی بات بھی نہیں لہذا تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں ‘‘ایسا دکھائی دیتا تھا یہ تجویز اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ تھی جسے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے فوراً قبول کر لیا شاید وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی یہی چاہتے تھے ۔گویا یہ سارا میلہ ہی احسن اقبال کا کمبل چرانے کے لئے لگا یا گیا تھا وزرائے اعلیٰ کی وزیر اعظم تک ہر تین ماہ بعد رسائی کا جواز تلاش کر لیا گیا وزیر اعظم نے بھی اپنی سربراہی میں 11رکنی سٹیئرنگ کمیٹی قائم کرکے سب کو رام کر لیا احسن اقبال جو بات پچھلے کئی ماہ سے کہہ رہے تھے قوم پرست لیڈراس پر یقین نہیں کر رہے تھے لیکن جب یہی بات وزیر اعظم نے کہی تو سب نے یقین کر لیا انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کو ترجیحی بنیادو ں پر آئندہ اڑھائی سال میں مکمل کیا جائے گااور15جولائی 2018ء کومغربی روٹ فنکشنل ہو جائے گا،ضرورت پڑی تو مغربی روٹ کے لئے فنڈز بڑھادیئے جائیں گے۔ایکسپرس وے کو چھ رویہ کرنے کی گنجائش ہو گی، مغربی روٹ پہلے مرحلے میں4 رویہ بعد میں 6 رویہ کر دیا جائے گا۔ مغربی روٹ کو موٹروے سے ملایا جائے گا، انڈسٹریل پارکس وفاق اور صوبے مل کر بنائیں گے ان اعلانات کے بعد اجلاس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں نے ایک بار پھر اقتصادی راہداری منصوبے کی مکمل حمایت کا اعادہ تو کر دیا لیکن’’ میں نہ مانوں‘‘ پارٹی کے وزیر اعلیٰ کی باڈی لینگوئج یہ بتا رہی تھی وہ بڑوں کی محفل میں سب کچھ مان تو آئے ہیں لیکن خواہش کے مطابق منصوبہ پر عمل درآمد نہ ہونے پر ان کے عزائم خطر ناک ہیں موٹروے کے لئے زمین کا حصول صوبوں کی ذمہ داری ہو گی جب کہ زمین کی خریداری کے لئے فنڈز وفاقی حکومت ادا کرے گی اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کام میں کے پی کے حکومت وفاقی حکومت سے کس حد تک تعاون کرتی ہے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ موجودہ مالی سال میں مغربی روٹ کے لئے 40ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ، ضرورت پڑنے پر فنڈز میں اضافہ کر دیا جائے گاوزیر اعظم محمد نواز شریف نے پاک چین اقتصادی راہداری پر قوم پرست جماعتوں کے قائدین کے تحفظات دور کر کے راہداری کو متنازعہ بنانے اور اس پر سیاست کرنے والوں کے غبارے سے ہو ا تو نکال دی ہے لیکن پرویز خٹک نے وفاقی حکومت سے سیاست کی لمبی اننگز کھیلنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔ وزیر اعظم نے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) کے مطالبات کو بھی پذیرائی بخشی ہے حالیہ کل جماعتی کانفرنس میں گوادر کی عوامی ملکیت اور شراکت داری سے متعلق مطالبات کے ضمن میں قانون سازی کے لیے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کو تجاویز مرتب کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے ۔قوم پرستوں نے گوادر میں غیر مقامی افراد کو ڈومیسائل و یہاں کا شناختی کارڈ نہ دینے اور مقامی انتخابی فہرستوں میں ان کے ناموں کو درج نہ کرنے اور منصوبوں میں گوادر کی آبادی کی شراکت سے متعلق مطالبات پیش کئے تھے جن پرپارلیمانی کمیٹی میں غور کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے وزیر اعظم کی طرف سے پارلیمانی جماعتوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے مشاورتی اجلاس سے قبل بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے حوالے سے دھواں دھار تقاریر کی گئیں لیکن کوئی قوم پرست لیڈر مغربی روٹ کے حوالے سے اپنے تحفظات بارے میں شواہد پیش نہیں کر سکا سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے گوادر کی اہمیت اور بلوچستان کے وسائل پر بریفنگ دیتے ہوئے ایک نقشہ پیش کیا جسے وفاقی وزیرمنصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ’’ یہ آفیشل نقشہ ہی نہیں ہے پتہ نہیں کس کا نقشہ ہے‘‘ کانفرنس کے میزبان سردار اختر مینگل نے دیگر جماعتوں سے مختلف موقف اختیار کیا اور کہا کہ’’ ہم پاک چین اقتصادی راہداری کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے ہم شراکت داری چاہتے ہیں‘‘ یہ بات قابل ذکر ہے سی پیک کے تحت چین نے ابھی تک پاکستان کو نئی موٹروے بنانے کے لئے ایک پیسہ نہیں دیا ہے اس وقت تک مشرقی اور نہ ہی مغربی و وسطی روٹ پر کسی جگہ صنعتی زون پر کام شروع کیا گیا البتہ ایک بات سامنے آئی پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے والوں کو پنجاب میں ترقیاتی منصوبے ہضم نہیں ہو پارہے یہ منصوبے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی سے پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں لاہور ، راولپنڈی اور ملتان میٹرو پروجیکٹ پنجاب حکومت نے اپنے بجٹ سے بنائے ہیں ،’’ لاہور اورنج لائن ٹرین منصوبہ‘‘ بھی پنجاب حکومت بنوا رہی ہے کراچی لاہور موٹروے کا اقتصادی راہداری منصوبے سے کوئی تعلق نہیں، پرویز خٹک جو ایک دھیمے مزاج کے مالک ہیں لیکن وہ اپنے صوبے کے قوم پرستوں کی سیاست کو ناکام بنانے کے لئے ’’قوم پرست‘‘ لیڈر بن گئے ہیں انہوں نے اختر مینگل کی اے پی سی میں اس بات کا رونا رویا کہ ’’ میں خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ ہوں مگر کسی نے سی پیک کے حوالے سے رابطہ قائم نہیں کیا صاف صاف بتا دیں اس ترقی سے ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے توہم چپ ہو کر بیٹھ جائیں گے خیبرپختونخوا حکومت روٹ کے خلاف نہیں ہے۔سچ بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ غدار ہیں ہم غدار نہیں ہیں جس روٹ پر بجلی ،گیس،ریلوے، آپٹیکل فائبر کی سہولیات نہیںہوں گی تو ہم کس مقصد کے لیے انڈسٹریل پارکس کے لئے جگہ دے دیں پرویز خٹک نے
آل پارٹیز کانفرنس میں کی گئی تقریر کو وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں بھی دہرایا تو بڑی حد تک ان کے سوالات کا جواب مل گیا معلوم نہیں وہ وزیر اعظم کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس کے فیصلوں سے کس حد تک مطمئن ہیں سر دست کچھ نہیں کہا جا سکتا مشاورتی اجلاس سے اگلے روز شادی کی ایک تقریب میں ملاقات میں میرے زمانہ طالبعلمی کے دوست لیاقت خٹک نے اپنے بھائی پرویز خٹک سے تعارف کرایا تو وہ پھٹ پڑے’’ اخبارات میں جو کچھ آرہا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہم دیکھیں گے کہ وفاقی حکومت ہمارے ساتھ کئے گئے وعدے کس حد تک پورا کرتی ہے ؟ اگر ہم سے دھوکہ کیا گیا تو پھر اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے‘‘ پرویز خٹک کے بدلے ہوئے تیور سے دکھائی دیتا ہے کہ ان پر اپنے قائد عمران خان کے انداز سیاست کے نقش گہرے ہیں کچھ کرنے سے قبل انہیں رام کرنے کے لئے وفاقی حکومت کو انہیں مطمئن کرنا ہو گا۔