ناز بٹ
”ایک اور آخری دن“ شہناز پروین سحر کے گزرے ماہ و سال کے پگھلتے ہوئے لمحات کا شعری اظہاریہ ہے۔ 223 صفحات پر مشتمل ”ایک اور آخری دن“ میں 60 غزلیات، 34 نظموں، قطعات و اشعار کے علاوہ ان کا پنجابی کلام بھی شامل ہے، زندگی کے وہ گوشے جو دل کے نہاں خانوں میں چھپا رکھے تھے ، وہ سرگوشیاں جو انہوں نے چ±پکے کبھی دیواروں سے کیں، وہ آنسو جوسیاہ رات کی جان لیوا خموشی میں ان کے تکیے میں جذب ہوتے رہے، وہ آہیں جو لب پر آنے سے پہلے ہی ان کے اندر ہی کہیں دم توڑتی رہیں، اشعار میں ڈھلتے ڈھلتے ”ایک اور آخری دن“ کی شکل میں ظاہر ہوئیں۔
زندگی کی سفاکی کو خود پر بہت خموشی سے جھیلتے ہوئے وہ کہہ جاتی ہیں
”اوپر تلے ہیں سنگ ِ حیات اور سنگ ِ مرگ
چکی کے دونوں پاٹ میں جا دی گئی مجھے©“
شہناز پروین سحر کے یہاں المیہ اپنی پوری تاثیر کے ساتھ جلوہ طراز ہے، انکی شاعری جذباتی ندرت کی عکاس ہے اور اس جذباتی حزنیہ نے انکی شاعری میں شہر ِ آشوب کا ایسا کرب سمو دیا ہے کہ شاعرہ کے آنسو قاری کی آنکھ سے بہہ نکلتے ہیں
”جسم کے پار مری روح تلک سناٹا
ہجر کی راکھ میں مٹی مری ڈھالی ا±س نے“
درد کی تان ایسی ہے کہ ٹوٹتی ہی نہیں.... ذرا یہ شعر دیکھئے
”سلگتی لکڑی پہ روٹی کو سینکتا ترا غم
پھرایک آنسو کو چ±پ چاپ ٹالتی ہوئی میں“
اور کہیں یہ آنچ اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ سب کچھ جلنے لگتا ہے....
”سمے کی راکھ میں اِک کوئلہ س±لگتا ہے
اِسی حرارت ِ پیہم سے جل رہی ہوں میں“
شہناز تار ِ حزن ِ نظر سے اپنی غزلوں کا تابناک آسمان روشن کرتی ہیں ، ان کے ہاں غم کی نشو نما خ±ود رو پودوں کی طرح نہیں بلکہ اک تہذیب ِ غم ہے جو مَن کی پوری طرح آبیاری کرتی نظر آتی ہے۔
”اڑتی رہی فلک پر ستاروں کی اوڑھنی
سر سے بہت ہی دور رِدا دی گئی مجھے“
بے ثباتی اور بے بسی نے ان کی روح میں مایوسی گھول رکھی ہے۔
”زندگی کی لکیر جانتی تھی
بات لمبی تھی عمر چھوٹی تھی
اب تو قبروں سے دوستی ہوگی
زندگی مجھ سے جھوٹ بولتی تھی“
اور ذرا یہ شعر دیکھئے گا۔
”کچھ بھید ا±دھڑتی ہوئی قبروں کی طرح ہیں
دنیا سے چھپائے مرے دم ساز سے کہنا“
شہناز پروین کے ہاں غم واقعاتی بھی ہے، سماجی بھی اور نفسیاتی بھی.... ان کا دکھ ذاتی بھی ہے ، اجتماعی بھی.... یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پوری تاثیر کے ساتھ دل پر براہ ِ راست اترتی ہے
”جسم ہیں قبر کی حراست میں
روح آزاد ہے دفینوں میں“
معاشرے کی بے حسی اور سماجی نا انصافی پر ان کا دل کڑہتا ہے
”جیتے جی تو زندگی کے چیتھڑے نوچے گئے
مرگیا تو اس کی خاطر سب نے چندہ کر دیا“
درد کی مدھم مدھم لو پر پگھلتے، روح کو قطرہ قطرہ پگھلاتے لفظ بہت دیر تک قاری کو اپنے اطراف سے لاتعلق کر دیتے ہیں
”اس آتش ِ پیہم سے پگھلتی ہے مری جاں
بارش میں بھی دم گھٹتا ہے دمساز سے کہنا“
کسی شاعر کا لہجہ، جذبوں کا وفور اور کیفیت کی بے ساختگی ہی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اور اپنے خد و خال اور تراش خراش کے تنوع کا اعلان کرتی ہے۔ شہناز پروین سحر کی شاعری میں قدرت کی عطا کردہ یہ خوبیاں اور محاسن بکثرت نظر آتے ہیں۔ انہوں نے محبت اور زندگی کے نشیب و فراز پر اپنی غزلوں میں براہ ِ راست سفر کیا ہے۔ ان کے اظہار کا ایسا مثالیہ موجود ہے جو ایک بہترین، لہجہ تراش اور اسلوب پرور شاعری کا ضامن ہے
”خاک سے میرا وجود اور خاک پر میرے سجود
زندگی لکھی ہوئی ہے خاک کے اوراق پر“
اور شہناز کی اچھوتی سوچ اس شعر میں دیکھئے
”دھوکہ ملے تو پوری توانائی سے ملے
چھوٹی شکست بھی تو نہیں چاہئے مجھے“
وہ زندگی اور رشتوں کی شکست و ریخت کے کرب کو خود میں اتارتی آئی ہیں
”مجھے نجات دلا دے گا میرے زنداں سے
کچھ اس طرح سے مرے جسم و جان باندھے گا
میں گر پڑی تری دستار کے سنبھالنے میں
مری رِدا سے مگر ت±و مچان باندھے گا“
انہوں نے فلسفہ ءمحبت سے نئے اساطیر تو دریافت نہیں کئے لیکن رگوں کو چاٹتی محبت کی لپٹوں میں موجود درد کا زہر کشید کر کے انہوں نے انتہائی پر اعتماد لہجہ حاصل کیا، وہی لہجہ جس میں غنایت بھری ریاضت ہے۔ اسی لہجہ کے زور پر ان میں سچائی کا وفور پیدا ہوا اور خوشا وہ شاعر جو صداقتوں اورجذبات سے معمور شاعری کا امین ہو۔
”میں اپنی ذات کے پسماندگان میں ہوں سحر
وہ شخص مجھ کو ملا بھی تو خوں بہا کی طرح“
یہاں محبت کی شکستگی دیکھئے
”وہ گلے ملتا ہے ملبوس بچا کر اپنا
زندگی کیسی کلف دار بنا لی اس نے
اتنا معدوم ہوا وہ کہ نظر سے بچھڑا
لمس کی یاد بھی پوروں سے اٹھا لی ا±س نے“
اور
”وفا پرست تھا لیکن وفا شعار نہ تھا
وہ کچھ بھی تھا ہمیں اس سے محبتیں تھیں بہت“
کبھی وہ محبوب کی بے وفائی سے ملے گھاو¿ پر خود ہی مرحم رکھنے لگتی ہیں ، خود ہی خود کو تسلی دیتی ہیں
”یوں ہی بس وہ مجھ کو چھوڑ کے سب سے ملتا رہتا ہے
بچہ بھی تو غلط کتابیں رکھ لیتا ہے بستے میں“
نظم پر بھی آپکی دسترس قابل ِ ستائش ہے۔
”مالک تو نے
میری مانگ میں
آخر ایسا کیا لکھا تھا
جس کو میری ان پڑھ ماں پڑھ پڑھ روتی رہتی ہے“
ایک اختصاص جو شہناز پروین سحر کو حاصل ہے وہ یہ کہ وہ انسانی رشتوں کی بڑی اعلی نباض ہیں اور ان کی ندرتوں کے اظہار پر قادر بھی ہیں اور یہ قدرت ِ اظہار سنگ ِ مر مر تراشنے جیسا وہ ھنر ہے جو نسائی شاعری میں خال خال ہی کہیں ملتا ہے کبھی وہ باپ کی جدائی پر نوحہ ک±ناں ہیں تو کبھی وہ ماں کے لئے تڑپ رہی ہیں۔ کہیں وہ بیٹی کی محبت میں سرشار ہیں تو کہیں پردیسی بیٹے کی دوری انہیں توڑ رہی ہے شہناز پروین سحر نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے کمال ِ فن یہ کہ دونوں زبانوں کے معجزات اور لسانی بَست و ک±شاد کو انہوں نے خوب نبھایا ہے
” کملیاں ماواں
آخری ساہ تک پ±تر لبھدیاں رہندیاں نے
اکھاں وچ ا±ڈیکاں بھر کے
جیندیاں مردیاں رہندیاں نے
ایویں کردیاں رہندیاں نے
میری یاد اچ میرے پچھے
مٹی دی نہ ڈھیری لبھیں
کدی نہ گھ±من گھیری لبھیں“
میں شہناز پروین سحر کو " ایک اور آخری دن ”کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں ، میری دعا ہے کہ شہناز پروین سحر کا یہ سخن پارہ پذیرائی کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو اور اس کا حرف دلوں میں اپنے جگہ پاتا رہے۔آمین