غلام حسین ساجد
میرے لئے اشرف جاوید کی غزل بل کہ اس کی مجموعی شاعری کا پہلا تاثر اردو غزل کی عمومی روایت سے اس کے گہرے انسلاک کا ہے یعنی زندگی کے بے مصرف ہوتے چلے جانے کا دُکھ، ایک تنگ ہوتے ہوئے دائرے میں بھاگتے چلے جانے کی اذیت جو روح کے تشنج کا سبب بھی بنتی ہے اور اُمید کے ستاروں کے بجھتے چلے جانے کی وجہ بھی اور ان سب پر غالب زندگی اور زندگی کو بدلنے کی کوشش کی رایگانی کا غم جو موجود کے ساتھ فردا کی چمک کو بھی گہناتا ہے، پھر بھی اشرف جاوید کی غزل روایتی ہے نہ الم پرست کیوں کہ اس کے برتے ہوئے لفظوں میں چمک ہے اور موضوعات میں اجتماعی شعور کے جمال فراواں کی دل کشی، جسے نئے خلق کردہ آہنگ و بحور کی ندرت نے ایک نئے لحن میں اس طرح ظاہر کیا ہے کہ ادب کا کوئی سنجیدہ قاری اُس سے صرف نظر کرنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔
اشرف جاوید رجعت پسند ہے نہ ہو سکتا ہے، پھر بھی روایتی ترقی پسند ادب کے جراثیم اس کی کتاب میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اپنی کنہ میں یہ کتاب ایک فکری روداد ہے جو زندگی، عشق، فرصت عشق، پاکیزگی اور ایثار جیسی ہزاروں نعمتوں کے بے معنی اور بے مصرف ہوتے چلے جانے کی کتھا بیان کرتی ہے اور امتداد زمانہ کے ہاتھوں ورود کرتی جبریت سے زیست کرنے اور جہد مسلسل کا راستہ نکالتی ہے۔ ظاہر ہے ، اس میں عصری شعور، بالغ نظری اور جدید تر حسیت کا بھی بڑا ہاتھ ہے اور شاعر کے طرز اظہار کا بھی۔
اشرف جاوید ایک منجھا ہوا شاعر ہے۔ میں یہ بات اس کی فن شعر سے گہری واقفیت، بحور کے تجربات اور نئے آہنگ خلق کرنے کی قدرت کی بناءپر نہیں کہہ رہا۔ غزل بنانے کے عمل میں اس کے وفور شعری پر غالب آتے ادراک کو محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اس کی کئی غزلوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھا تاکہ میں آہنگ و بحور کے تجربات سے بالاتر ہو کر اس فکری مکاشفے کی پرتیں کھول سکوں جو شاعر کو ایک نیا رنگ خلق کرنے پر اُکساتا ہے اور ہر بار میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس طرح کے تجربات سے شاعر کا مقصد اپنے عروضی تجربوں کی دھاک بٹھانا نہیں، اپنے شعر مکاشفوں کو بلند آہنگ بنانا ہے اور شاعر نے یہ بلند آہنگی رزمیہ بحروں کو استعمال میں لا کر نہیں ، نرم خو اور نرم قدم بحروں کی نئی ساخت کے ذریعے پیدا کی ہے، جیسے کوئی کسی تحریر کو اُجاکر کرنے کے لئے اُسے خط کشیدہ کرتا ہو یا کسی تصویر کو رنگوں کی نئی ترتیب سے زیادہ واضح اور جاذب نظر بناتا ہو اور یہ حقیقت اپنی جگہ ایک سچ ہے کہ نئی ترتیب ہمیشہ نئے امکانات لیکر آتی ہے۔ اشرف جاوید نے نئی بحروں کے ان امکانات کو خوب خوب برتا ہے۔
کہا گیا ہے کہ اشرف جاوید اسّی کی دہائی کے شاعر ہیں۔ یہ بات اُس کے شعری سفر کی طوالت کو بیان کرنے کی حد تک تو درست ہو سکتی ہے ، اس کے فکری العباد کی شناخت کے لئے نہیں۔ ادب کو دہائیوں میں تقسیم کرنے کا کام میں نے ہی آغاز کیا تھا(ثبوت: نئی پاکستانی نظم نئے دستخط، مطبوعہ معیار پبلی کیشنز.... دہلی 1981، ضمنی عنوان، ستر کی دہائی میں لکھی جانے والی نظموں کا انتخاب) مگر اب میں خود سے اور آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ادب کو دہائی جیسی مختصر اکائی میں بانٹنا ممکن ہے؟ زندگی کی طرح، زندگی سے جڑی اشیا میں بھی ارتقاءکا عمل جاری و ساری ہے، پھر شاعر کے ذہنی ارتقاءپر دہائیوں کی چھاپ لگا کر فکری قفل بندی کا کیا مطلب؟ اس بنیاد پر ”داغ چراغ ہوئے،، 2009ءمیں شائع ہونے کے باعث اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کی شاعری ہے اور اس میں اس عہد کے سماجی، سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور روحانی رویے روح عصر بن کر دھڑک رہے ہیں۔ عالمی سامراجیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گھٹن اس کتاب کے ایک مصرعے سے اپنے ہونے کی خبر دیتی ہے۔ جب سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے تو مریض کو آکسیجن ٹینٹ میں لے جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لئے اس کتاب کا بنیادی استعارہ ”ہوا،، ہے۔
ڈاکٹر ضیاءالحسن نے اس امر کی درست نشان دہی کی ہے کہ اشرف جاوید کے یہاں سفر کا حوالہ تو موجود ہے مگر منزل کا حوالہ ناپید ہے۔ میں اسی انکشاف کی وضاحت میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ اشرف جاوید کے یہاں منازل کے اسی طرح ناپید ہونے کا سبب یہ ہے کہ ان کے یہاں طے کئے جانے والے سفر کی کوئی سمت متعین نہیں۔ یہ نا سمتی کا سفر ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی ہم اور شعر اس سفر میں رواں دواں رہنے پر مجبور ہیں۔ میں اور اشرف جاوید ایک ہی سطح سے کلام نہیں کرتے۔ ہمارے حسیاتی منطقے اور فکری رویے الگ ہیں۔ مثلاً میں اور میرے ساتھی سری علامتوں کے استعمال سے تہذیبی تسلسل کو عصر حاضر سے آمیخت کرتے ہیں۔ اس نے ہمعصر شاعری میں ، باالخصوص غزل میں بالکل الگ راہ نکالی ہے اور یہی انفرادیت اس کا امتیاز بھی ہے، وہ خود کہتا ہے۔
اک نئی راہ بناتا چلا جاتا ہوں سخن میں
یہ بھی ممکن ہے کہ اس راہ پہ زمانہ نکل آئے
اور میں اس کے دعوے کی تحسین بھی کرتا ہوں اور تائید بھی۔
داغ چراغ ہوئے۔۔۔۔ نئی غزل کا طلوع
Jan 18, 2017