لاہور: اپوزیشن کا پاور شو‘ 2 روز میں لائحہ عمل دینگے: طاہر القادری

لاہور (ایجنسیاں+ وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت نیوز) پاکستان عوامی تحریک اور دیگر ہم خیال جماعتوں نے سانحہ ماڈل ٹائون اور قصور واقعہ کے خلاف گزشتہ روز مال روڈ لاہور پر احتجاج کیا۔ اس موقع پر عوامی تحریک، پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جلسہ کے باعث مال روڈ اور اس سے ملحقہ مارکیٹوں میں کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل رہا۔ مال روڈ اور اس کے گرد ونواح کے سرکاری و پرائیویٹ سکولوں میں بھی تعطیل رہی۔ جلسہ گاہ سے ایک کلومیٹر کے علاقہ تک ٹریفک بالکل بند کر دی گئی۔ جلسہ کے باعث چیئرنگ کراس کے قریبی تمام اہم بنک جس میں نیشنل بنک سمیت بڑے نجی بنک شامل ہیں بھی بند رہے۔ مال روڈ، پینوراما، بیڈن روڈ، صادق پلازہ اور ہال روڈ سمیت تمام کاروباری مراکز بھی بند رہے۔ چڑیا گھر جہاں ہزاروں بچے اور بڑے روزانہ تفریح کے لئے آتے ہیں کو بھی تالے لگے رہے۔ جلسہ گاہ کو آنے والے راستوں کو کنٹینر لگا کر ٹریفک کیلئے منگل کی رات کو ہی بند کر دیا گیا تھا جس کے باعث شہریوں کو آمد و رفت کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مال روڈ کے دونوں اطرف کے علاقے کٹ کر رہ گئے۔ جلسہ گاہ میں آنے والے افراد کیلئے بھی داخلی اور خارجی راستوں پر سکیورٹی کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا ہر کسی کی تلاشی لے کر جلسہ گاہ میں جانے کی اجازت دی گئی۔ شیخ رشید نے خطاب کرتے ہوئے کہا چوروں، لٹیروں اور ڈاکووں کے خلاف احتجاج کا پہلا دن تھا۔ جنہوں نے داماد کو 9 ،9 ارب روپے کابینہ سے دلوائے، یہ لوگ غیرملکی ایجنڈے پر پاک فوج کی تذلیل کررہے ہیں، یہ لوگ 5 ججوں کے فیصلے کو ٹوکری میں پھینکنے کا کہتے ہیں، سمجھتے ہیں ملک میں انہیں چوری کا حق ہے جب تک یہ قانون کی گرفت میں نہیں آتے ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے کہا وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون پنجاب کو باقر نجفی رپورٹ کی روشنی میں مستعفی ہوجانا چاہیے۔ ماڈل ٹاون میں 14 لوگوں کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ ظلم پر انصاف نہیں ہوا، خاموش رہتے تو ظالم کے ساتھی کہلاتے، اسی لئے متحدہ اپوزیشن کے جلسے میں شرکت کے لئے لاہور آیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون پنجاب کو رپورٹ کی روشنی میں مستعفی ہوجانا چاہئے۔ مصطفی کمال نے کہا حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتے ہیں، جمہوری سسٹم کو آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی نے مطالبہ کیا ماڈل ٹائون واقعہ پر انصاف ملنا چاہیے‘ ہمارا پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان نے کہا لاہور میں احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ پنجاب پولیس میں پروفیشنل لوگوں کو پیچھے ہٹا دیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے عوامی تحریک کو رات بارہ بجے تک جلسہ کرنے اور دھرنا دینے کی مشروط اجازت دے دی۔ فاضل عدالت نے رات بارہ بجے کے بعد میڈیا کو کوریج سے روک دیا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ احتجاج کا بنیادی حق شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے ساتھ مشروط ہے۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس شاہد جمیل اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے مختصرفیصلہ سنایا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے عدالت کے روبرو یقین دہانی کے مطابق دھرنے کے شرکا کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے۔ راہ گیروں اور ٹریفک کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ دھرنا12بجے کے مخصوص وقت کے بعد ختم کر دیا جائے۔ انتظامیہ 12بجے کے بعد ٹریفک بحال کروائے تاکہ مال روڈ پر معمولات زندگی معمول پر آسکیں۔ صبح تک مال روڈ پر کاروبار زندگی اور سکول کھلنے کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ عدالت نے حکومت پنجاب، آئی جی پنجاب، ڈی سی لاہور کو عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت اکتیس جنوری تک ملتوی کر دی۔ فاضل عدالت نے دھرنوں کے خلاف قانونی نکات کی وضاحت کے لئے فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے اپنے دلائل میں کہا کہ سیاسی جماعتیں عوام کی منتخب حکومت کے خلاف دھرنا دینے جا رہی ہیں۔ مال روڈ پر دھرنوں سے تاجر برادری متاثر ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا دھرنا پی پی سی 124اے کی خلاف ورزی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ایک پتا بھی نہیں ہلے گا۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت خود اپنی پالیسی پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت نے پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا مگر قانون سازی نہیں کی۔ رہنما پیپلز پارٹی لطیف کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے عدالتی فیصلوںکو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ متحدہ اپوزیشن آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کے لئے دھرنا دے رہی ہیں۔ عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ رات گئے دھرنا ختم کر دیا جائے گا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ میں نے آج سے 6 سات سال پہلے کہا تھا کہ یہ گریٹر پنجاب بنانا چاہتے ہیں، ان کے منہ سے نکل گیا کہ مجھے شیخ مجیب الرحمن بنایا جارہا ہے۔ شیخ مجیب وہ ہے جسے ہماری نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی ہم نے ہمیشہ پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ آپ کے ساتھ تو کچھ بھی نہیں ہوا، ہوا تو پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے، ہوا تو قادری صاحب کے ساتھ ہے۔ ہم پاکستان میں جینا اور مرنا چاہتے ہیں ملک کو خطرہ صرف جاتی امراء سے ہے، ہم نے ہمیشہ پاکستان کی بات کی ہے۔ دعا اور دوا دینا ہم سیاسی لوگوں کا کام ہے، سیاست کریں گے مگر ملک کے خلاف سیاست نہیں ہوتی۔ بلوچستان کو میں نے دعا ضرور دی تھی۔ ملک پر اتنا وزن ڈال دیا ہے یہ چاہتے ہیں ملک کمزور ہوجائے۔ ملک کو مقروض کردیا ہے۔ ہمیں مجبور کررہے ہیں کہ ہم جمہوریت کا سفر پورا نہ کریں، پاکستان نے ابھی بہت سفر طے کرنا ہے، میں جب چاہوں ان کو نکال سکتا ہوں، مجھے انہیں نکالنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ میں پاکستان کے مستقبل کا سوچتا ہوں ۔ نوازشریف نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے 500 ووٹ لئے۔ ایک وقت تھا جب مسلم لیگ ن خود انہیں ڈپٹی سپیکر بلوچستان بنانا چاہتی تھی، جب انہیں ڈپٹی سپیکر بنایا گیا تب یہ بات یاد نہیں آئی یہ جہاں جائیں گے جاتی امراء بنالیں گے۔ ہماری آنے والی نسلوں نے اس ملک میں رہنا ہے۔ انہیں کسی کی پروا نہیں‘ انہیں صرف جاتی امرا کی پروا ہے، ہم انصاف لے کر رہیں گے۔ ضیاء الحق کی باقیات کا آج بھی مقابلہ کررہے ہیں‘ زینب کا انصاف بھی لے کر رہیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطاب ترمیم کے ساتھ ایک رباعی سے شروع کرتا ہوں۔

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
جاتی امراء کے در و دیوار ہلا دو
سلطانی مظلوم کا آتا ہے زمانہ
جو نقش ستم تم کو نظر آئے مٹا دو
انہوں نے کہا کہ کسی ایشو پر مل بیٹھنے کیلئے برداشت نہیں رہی تھی۔ زرداری صاحب آج سب اکٹھے ہونے میں میرا کمال نہیں یہ شہداء کے مقدس خون کا کمال ہے۔ یہ کمال ہے ان معصوم بچوں اور بچیوں کا جن کی حفاظت کیلئے سب اکٹھے ہوئے۔ معاشرے میں اتنی تقسیم، تفریق ہو چکی کہ کسی معاملے پر مل بیٹھنے کا حوصلہ نہیں رہا۔ ملک کی ساری قومی سیاسی، مذہبی قیادت تکریم انسانیت کیلئے جمع ہے۔ ہم سب سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کو انصاف دلانے جمع ہوئے ہیں۔ آپ کو بلانے کا مقصد اپنی ذات کیلئے عہدہ منصب حاصل کرنا نہیں تھا نہ ہے نہ ہوگا۔ میرا مقصد سوئے ہوئے شعور کو جگانا ہے۔ نئے دور کے شیخ مجیب سے ملک کو بچانے کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ جلسے کے پہلے سیشن کی صدارت آصف زرداری دوسرے کی عمران خان نے کی۔ آج قومی دولت لوٹی جا رہی ہے۔ طاہر القادری نے کہا جو مظلوموں، نہتوں پر فائرنگ کرتا ہے وہ تمہارا دشمن ہے۔ قوم اٹھے اور پہچانے کہ دشمن کون ہے۔ ہم اس ملک کے امن کو نہیں توڑنا چاہتے۔ نواز اور شہباز شریف اگر ہم نے امن اور آئین توڑنا ہوتا تو آپ کو جاتی امراء سے باہر ایک قدم رکھنے کی جرات نہ ہوتی۔ ہم آپ کے ظلم و جبر کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ہم آئین نہیں سلطنت شریفیہ کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ہم نے قانون ہاتھ میں لینا ہوتا تو سانحات برداشت نہ کرتے۔ ہمارا شیوہ نہ توڑ پھوڑ ہے نہ جلائو گھیرائو، غریب کی بیٹی کی عزت امیر کی بیٹی کے برابر چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں ملک کا قانون سب کیلئے ایک جیسا ہو۔ ہماری تحریک تمام مظلوموں کو انصاف دلانے کی تحریک ہے۔ شہباز شریف نے 14 بے گناہ لوگوں کو قتل کرایا۔ ایک بھائی نے 14 بے گناہ شہریوں کی لاشیں گرائیں اور 100 سے زائد کا جسم چھلنی کیا۔ سپاہی سے لے کر آئی جی تک تقرر و تبادلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ 10 سال میں ساڑھے 700 ارب روپے پنجاب پولیس کو دیئے گئے۔ پوری دنیا میں ایک سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کا نام کسی شخص کے نام پر ہو۔ یہ واحد جماعت ہے جس کا نام مسلم لیگ نواز ہے۔ پنجاب پولیس کو مسلم لیگ ن کا عسکری ونگ بنا دیا گیا۔ یہ رہے تو اس ملک میں جمہوریت نہیں آئے گی۔ پولیس ان کے خاندان کو تحفظ دینے میں لگی ہے۔ سارا پنجاب غیر محفوظ کر دیا گیا۔ نواز شریف مجیب الرحمن کو اپنا نظریاتی قائد مانتے ہیں۔ نواز شریف نریندر مودی کو اپنا دوست مانتے ہیں، جمہوریت کی حقیقی روح بحال کرنا چاہتے ہیں۔ امید کی کرن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ظلم کے خلاف ایک آواز بلند کرکے کھڑے نہ ہوئے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ سسلیئن مافیا اور گاڈ فادر اپنی حکومت نہیں بنا سکے یہ سسلیئن مافیا اور گاڈ فادر سے آگے نکل گئے۔ انہوں نے انسانیت پر ظلم کے پہاڑ گرائے۔ یہ جمہوری جدوجہد اور احتجاج کی ابتدا ہے اسے انتہا تک لے جانا ہے۔ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور عزم کو بلند کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف ہم سب ایک ہیں اور آج ہم احتجاج نہیں کر رہے بلکہ انصاف مانگ رہے ہیں۔ آج کا اجتماع 20 کروڑ عوام کی آواز ہے۔ حکومت کے خلاف ہم سب ایک ہیں جبکہ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک قائم و دائم رہے اور انصاف ملتا رہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انصاف کے لئے عوام کو باہر نکلنا ہو گا۔ انہوں نے طاہر القادری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کمال مہارت سے سب کو اکٹھا کیا ان کا کہنا تھا اپوزیشن کے اتحاد کا کریڈٹ پنجاب حکومت کو جاتا ہے۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت کا خاتمہ یقینی ہے، مظلوموں کے لئے انصاف لے کر رہیں گے، ماڈل ٹائون کے شہداء کو انصاف ملنا چاہئے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے مال روڈ لاہور پر جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماڈل ٹائون میں نہتے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ پنجاب پولیس نے اپنے ہی نہتے شہریوں پر گولیاں چلائیں دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کی پولیس اپنے عوام پر گولیاں چلاتی ہو۔ انصاف مانگنا لوگوں کا حق ہے۔ اعتزاز نے سوال پوچھا مردان میں عاصمہ‘ قصور میں زینب کے کیس میں کیا فرق ہے جرائم ہر ملک میں ہوتے ہیں مہذب معاشرہ مجرموں کو پکڑتا ہے۔ قصور میں بچوں سے زیادتی کا ویڈیو سکینڈل سامنے آیا کچھ نہیں ہوا، کسی کو عبرت ناک سزائیں نہیں ملیں اور پھر سب بھول گئے۔ قصور میں 11 بچیوں کو چند ماہ میں قتل کیا گیا۔ زینب کا کیس آیا تب قوم کو پتہ چلا یہ ہمارے بچوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ سارا پاکستان دیکھ رہا تھا کہ ماڈل ٹائون میں پولیس نہتوں پر گولیاں چلا رہی تھی، طاہرالقادری نے پاکستان کی ساری جماعتوں کو اکٹھا کیا۔ ماڈل ٹائون میں 14 لوگوں کو قتل کیا گیا اور کئی زخمی ہوئے۔ کیا قصور اور ماڈل ٹائون کے متاثرین کو انصاف ملا، عاصمہ کے والدین نے 13 جنوری کو پولیس کو بتایا کہ بچی غائب ہے۔ پولیس نے 14 جنوری کو عاصمہ کی لاش برآمد کرلی۔ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کی بے حرمتی کے واقعے میں 9 ملزمان پکڑے گئے ۔ مشال خان قتل کیس میں 57میں سے 55 ملزمان جیل میں ڈالے گئے، خیبر پی کے اور پنجاب میں فرق یہ ہے کہ خیبر پی کے میں ملزمان پکڑے گئے۔ پولیس نے جن پر گولیاں چلائیں وہ عوامی تحریک کے ورکر نہیں، انسان بھی تھے، پاکستانی بھی تھے۔ زینب کے والد نے آرمی چیف اور چیف جسٹس سے انصاف مانگا۔ زینب کے والدین نے پنجاب پولیس اور وزیراعلیٰ سے انصاف نہیں مانگا۔ عمران خان نے کہا کہ آج اگر ہم ایسے احتجاج کرکے واپس چلے گئے تو ماڈل ٹائون کے شہدا کو انصاف نہیں ملے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک مجرم کو پارٹی سربراہ بنانے والی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہوں۔ انہوں نے یہ بات شیخ رشید کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر کہی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...