اسلام آباد (صباح نیوز + این این آئی) سینٹ مجلس قائمہ برائے ریاستوں و سرحدی امور نے گورنر خیبر پی کے سے فاٹا میں قیمتی معدنیات نکالنے کے معاہدوں میں وسیع پیمانے پربے قاعدگیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔ کمیٹی نے ہر قبائلی ایجنسی میں فاٹا کیمپس کھولنے کی سفارش کردی ہے۔ قائمہ کمیٹی کا اجلا س بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ہلال الرحمن کی سربراہی میں ہوا۔ فاٹا میں ترقیاتی منصوبوں کی سست روی، فاٹا یونیورسٹی کی موجودہ صورتحال، فاٹا کے طلبا کو نصابی کتابوں کی عدم فراہمی کے حوالے سے عوامی عرضداشت اور فاٹاکے ترقیاتی ادارے (FDA)کی جانب سے فاٹا میں کان کنی کے اجازت ناموں میں بے قاعدگیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ 8 سو ملین روپے کے منصوبوں پر مبنی دو پیکجز کے حوالے سے ایڈیشل چیف سیکرٹری فاٹا نے بتایا کہ گورنر کی ہدایات کے مطابق منصوبوں کی نشاندہی کی گئی منصوبے میرٹ پر دیئے جا ئیں گے اور ٹینڈر کے مراحل کو شفاف طریقے سے آگے بڑھایا جائے گا۔ سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے بتایا کہ 444 نئے منصوبوں میں سے 217 منظور ہو چکے ہیں اور 227 منصوبوں کی منظوری ابھی نہیں ہوئی۔ ارکان نے اعداد وشمار کے مطابق 227 منصوبے تاحال منظور نہ ہونے کا معاملہ اٹھایا۔ اراکین کمیٹی نے واضح کیا کہ فاٹا سیکرٹریٹ اور پولیٹکل ایجنٹس کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے اور فاٹا کے ترقیاتی عمل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں ۔ مہمند ایجنسی میں کان کنی کے شعبے میں لائسنسوں کے اجراء اور این او سی جاری کرنے کے عمل میں بے قاعدگیوں پر کمیٹی رپورٹ پر بھی تفصیلی غورکیا گیا۔ اراکین نے واضح کیا ہے کہ 2005 معدنیات سے متعلق قواعد و ضوابط میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگی کی خبریں عام ہیں اور لائسنس کے اجراء میں مناسب عمل اختیار نہیں کیا گیا۔ مہمند ایجنسی میں پہلی جماعت سے لیکر آٹھویں جماعت تک کے طلبہ کے لیے نصابی کتابوں کی حکومت کی جانب سے عدم فراہمی کے مسئلے پر دائر کی گئی ایک عوامی عرضداشت کا بھی جائزہ لیاگیا۔ کمیٹی نے اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔ کمیٹی نے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کی یقین دہانی کے باوجود فاٹا یونیورسٹی کے کیمپس ایجنسی سطح پر نہ کھولے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔