آئو مِل کر روتے ہیں!

Jan 18, 2018

رابعہ رحمن

وقت بہت بڑا مرہم ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید پہلے سانحے پر ہی دنیا تمام ہوجاتی، وقت کا پہیہ روزِ آفرینش سے نجانے کتنے حادثات کو کچلتا ہوا، کتنے مظلوموں کی آہ وپکار کو پاتال میں دفناتا ہوا، کتنے لاشے ہوا میں اچھالتا ہوا چلتا جارہا ہے ان تمام چیزوں کے باوجود معاشرے میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا کیوںکہ !آج بھی وہ ہی سسکیاں کانوں میں گونجتی ہیں بے بس لواحقین کی چیخ و پکار دل چیرتی ہے، سیاستدان کی وطن سے غداری کا علم بلند نظر آتا ہے، جذبات سے بھرپور تباہ ہوتی بے روزگار نسل کا تاریک مستقبل دکھائی دیتا ہے، مظاہرین پہ لاٹھی چارج ،گیس شیل اور گولیوں کی ترتڑاہٹ کے المناک مناظر آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں امیر سے امیر تر ہوتے ہوئے طبقات کی آتش سے جلتا ہوا غریب طبقہ جھلستا نظر آتا ہے، معذور ہوتے ہوئے سچے پاکستانی سڑکوں پہ نعرے بازیوں کے درمیان صرف چند پیسوں کی خاطر کہ ان کا ایک وقت کا چولہا جل جائے، امراء اور سیاستدانوں کے پاؤں میں ٹھوکریں کھاتے نظرآتے ہیں ریاست کے کمزور نظام میں پسے ہوئے وہ عام انسان جو اقتدار والوں سے زیادہ محبِ وطن ہیں سے ناانصافیوں کے پنڈال کھلے نظر آتے ہیں، سول سوسائٹی معاشرے کی طبقاتی تقسیم میڈیا کا کردار آج مولی گاجر کے بھاؤ انہیں بیچ رہا ہے اور وہ بکنے پہ مجبور ہیں۔ 

بے وجہ کی ہنگامہ خیزیوں میں فائرنگ سے مرنے والے بے گناہوں کے تڑپتے لاشے خون سے لت پت ادھ کٹے جسم فٹ پاتھ پہ پڑے آج بھی انصاف کرنے والوں کے منتظر ہیں ،زبان کی نوک پہ آکر فلیکس کی صورت میں ہر گلی محلے کی دیوار پہ ہر سڑک کے کھمبے پر اور ہر چینل کی خبر میں چلنے والے المناک واقعات کس طرح درد پھیلا دیتے ہیں کس طرح خاندانوں کے خاندان کی ریڑھ کی ہڈی تک دکھ کا زہر پھیل جاتا ہے اس پر طرہ یہ کہ شطرنج کی بساط بچھالی جاتی ہے سیاست کے بھیڑیے اپنی اپنی شاطر آنہ چالوں سے جمہوریت اور عوام کی عصمت دری پہ اتر آتے ہیں تو ایسے میں اے بنتِ حوا توکیوںروتی ہے ؟ کیوں اپنے گرد ردائیں لپیٹتی اور حجاب میں خود کو چھپاتی پھرتی ہے ؟ کیوں گھر کی چار دیواری سے نکلنے کے لئے باپ یا بھائی کی انگلی پکڑنا چاہتی ہے ؟ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے ہیں مگر یہاں نہ اسلام نظر آتا ہے نہ جمہوریت تو بے چارا تن تنہا پاکستان کیا کرے عدل و انصاف کی دھجیاں اڑاتے اڑاتے آج بنتِ حوا برہنہ گلیوں میں پھرائے جانے پر بھی تمام زبانیں گنگ ہیں آج نصیبوں جلی عورت کو تیزاب اور آگ میں پھینک کر اس کے گرد ر قص کیا جاتا ہے ۔غیرت کے نام پہ قتل جا ئز ہے جہیز کی لعنت میں لپیٹ کر معصوم بچیوں کو ذہنی اذییتوں کا شکار رکھا جاتا ہے ۔تو پھر ہم باعزت لوگ ہم باوقار غیرت مند قوم کیوں واویلا کرتی ہے ۔فلسطین ،یمن عراق کے مسلمانوں بچوں عورتوں پہ اندو ہناک مظالم پہ ہم بھی تو وہی کر رہے ،ہمارے معاشرے میں گھروں میں کیا ہوتا ہے کہاں کس کی زبان بندی کرا دی جاتی ہے ،کہاں بچیوں کو جانور وں کی طرح ہانکاجاتا ہے ،کیا ہم سب کی خبر رکھتے ہیں کیا ہم اندھے ، بہرے گونگے نہیں؟
آؤ مل کے روتے ہیں
ایک دوسرے کے سینے پہ ہم
مار کے برچھی روتے ہیں
تم اپنی نسلوں کی بچیاں لاؤ
میں اپنے گھر کی لاتی ہوں
پھر چَوک میں ان کو دے کے ہم
پھانسی مل کے روتے ہیں
تم قبریں سب کھود آؤ
پھر اس میں ہم دفنانے کی
رسم زندہ کر کے روتے ہیں
کل ان کو قتل تو ہونا ہے
خود کیوں نہ ان کو قتل کریں
پھر لاش پہ ان کی ہم اور تم
آؤ مل کے روتے ہیں
قارئین زینب آج ہوس کا نشانہ بنا کر ماری گئی اور یہ بھی یاد رکھیے گا کہ یہ کوئی آخری زینب نہیں ہے۔
ہم آج کہاں حضرت عمر کا قول ڈھونڈتے ہیں معاشرے میں ڈھونڈنے سے پہلے ہم اپنے گھروں میں تو عدل قائم کرلیں، اگر میڈیا گھروں تک پہنچ گیا تو پھر روز ایک ہاٹ سٹوری الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو مل جایا کرے گی پھر ہم اپنامنہ کہاں چھپاتے پھریں گے۔
افسوس اس بات کا بھی ہوتاہے کہ سانحہ جو بھی ہو اس میں عام عوام اور ملکی املاک کا کیا قصور ہوتاہے پہلے ہمارے ملک کو کھانے کیلئے سینکڑوں دشمن منہ کھولے بیٹھے ہیں جو ملک کی ترقی کے اولین دشمن کے طور پر کام کررہے ہیں اندرونی انتشار ہر جگہ ہوتاہے مگر عمارتوں، گاڑیوں کو مسمار کرنا کہاں کی رسم ہے؟اگر گھر کی دیوار گرجائے تو مکین کیلئے کتنی مشکل ہوتی ہے جس طرح املاک کوجلایاگیا اس سے انصاف مل جائے گا اور اگر مل بھی گیاتو جن لوگوں کا ذاتی نقصان ہوا ان کو انصاف کون دلائے،جلی ہوئی گاڑیوں کا ملبہ اٹھا کر وہ کس عدالت میں جائے گا، گزارش تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ مملکت میں جس دن قرآن اور سنت کی رو سے معاشرہ تشکیل پائے گا اس دن ایسے سانحے رونما ہونے بند ہوجائیں گے۔جہاں قصور میں68سے70ایسے واقعات آٹھ ماہ میں رجسٹرڈ ہوئے تو باقی ملکی صورتحال کا اندازہ ہم خود لگاسکتے ہیں، حکمرانوں کے کانوںپر جوں تک نہیں رینگتی اور اگر کوئی سیاستدان حاکم کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بھی سازش کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں، خدارا معصوم بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں ان پر اتنا ظلم نہ ڈھائیں۔ لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنا بند کر دیں ہو سکے تو مرہم بنیں اور اگر نہیں کر سکتے تو اپنی اوقات میں رہ کے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔

مزیدخبریں