مفکرین اور فلا سفہ کے نزدیک عدل یا انصاف کی تعریف کچھ یوں ہے’’ اشیاء کو ان کے اصل مقام پر رکھنا انصاف ہے‘‘۔ دوسری طرف انصاف کا الٹ ظلم اور ناانصافی ہے۔ جس کی تعریف یوں ہے۔’’اشیاء کو ان کے اصل مقام سے ہٹا دینا نا انصافی ہے۔’جسے ظلم بھی کہتے ہیں۔ درحقیقت انصاف انفرادی زند گی، معاشرے اور تمام دنیا میں امن و سکون کا با عث ہے۔ کسی معاشرے میں عدل و انصاف کا لازمی نتیجہ امن و سلامتی ہے۔اگر ہم اپنے معاشرتی نظام پر غور کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ معاشرے میں ہر فرد کے کچھ حقوق اور کچھ فرائض ہیں جن کو بجا لانا اچھی زند گی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ہم مزید گہرائی میں جا کر غوروفکر کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ایک شخص کے حقوق دراصل دوسرے کے فرائض ہیں اور دوسرے کے فرائض پہلے کے حقوق ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض کامل دیانتداری اور ایمانداری سے ادا کرے تو اس سے نا صرف اس شخص کے حقوق پورے ہوں گے بلکہ دنیا کا ہر فرد اپنے حقوق و فرائض سے عہدہ برآ ہو گا۔ اور تمام لوگ خوش اور مطمئن رہیں گے۔ جب یہ سب کچھ نہیں ہوتا تو یہاں سے معاشرتی مسائل جنم لینا شروع کر تے ہیں۔
انصاف کی اہمیت کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے میں انصاف کی وہی حیثیت ہے جو انسانی جسم میں خون کی۔ اگر خون میںکوئی فساد یا خرابی پیدا ہو جائے تو جسم کی فعالیت متاثر ہو جاتی، اسی طرح اگر نظام انصاف درست نہ رہے تو معاشرہ فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور جس معاشرے میں فساد عام ہو جائے وہ ترقی کرنے کی بجائے تنزلی بلکہ تباہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ اپنی قوم سے ہمددری رکھنے والا ہر حکمران اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتا ہے، اس لئے اس کے فلسفہ حکمرانی کی بنیاد ہی انصاف پر ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل سے کہا گیا کہ جنگ کی وجہ سے انگلستان تباہی کی طرف جا رہا ہے تو اس نے یہ پوچھا کہ کیا عدالتیں انصاف کر رہی ہیں، اس کا جواب ہاں میں ملنے پر چرچل نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ جب تک عدالتیں انصاف کر رہی ہیں انگلستان تباہ نہیں ہو سکتا۔مندرجہ بالامختصر بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے، وہ ہے انصاف کی دستیابی۔ یہاں کبھی بھی انصاف کا معیار ایک نہیں رہا، ہمیشہ سے امیروں کے لئے الگ اور غریبوں کے لئے انصاف رہا ہے۔ شائد اسی لئے ملکی خزانے کو بے دردی سے لوٹا گیا کہ یہاں کون پوچھنے والا ہے۔ وہ بھلا ہو پانامہ پیپرز منظر عام پر لانے والوں کا کچھ سیاسی چہروں کی کرپشن اور اخلاقی گراوٹ کھل کر عوام کے سامنے آگئی اور عدالت عظمیٰ نے بھی اس ضمن میں مثالی کردار ادا کیا، ایسا کردار جو ہر حوالے سے قابل تحسین ہے۔ عدالت کی اس مثالی کارکردگی کے پیچھے جس مرد جری کا ہاتھ رہا وہ ہیں جسٹس میاں ثاقب نثار جن کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان مدت ملازمت 17 جنوری کو ختم ہوئی۔ انہوں نے اپنے دور میں کئی ایسے امور سرانجام دیئے اور کئی ایسے فیصلے سنائے جن کی گونج دیر تک سنائی دیتی رہے گی۔ میاں ثاقب نثار بلا شبہ مفادِ عامہ سے تعلق رکھنے والے معاملات ، سرکاری محکموں میں بد عنوانی ، اختیارات کے ناجائز استعمال ، عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور گڈ گورننس کے قیام میں وفاقی او رصوبائی حکومتوں کی ناکامی اور اسی طرح کے دوسرے معاملات میں آئے روز از خود نوٹسز (سوموٹو ایکشن) لیتے ہوئے متعلقہ حکومتی محکموں اور اداروں کے سربراہوں اور دیگر ذمہ دار شخصیات اور عہدیداروں کو اپنی عدالت میں طلب کرتے رہے۔ ان کا اپنا یہ کہنا تھا کہ وہ عوام کے مفاد اور بد عنوانیوں کے خاتمے کیلئے جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے جہاں اپنی مدت ملازمت کے دوران انتہائی سرعت اور تندہی سے اپنے فرائض سر انجام دئے، وہیں وہ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ مدتِ ملازمت مکمل ہونے کے بعد بالکل مفت قانونی معاونت فراہم کریں گے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے پاکستان کی بہتری کے لیے سمت کا تعین کیا، ملک کو آگے لے کر چلنے کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد فری لیگل کلینک کا آغاز کریں گے اور جسے بھی قانونی معاونت کی ضرورت ہوئی اسے بالکل مفت مدد فراہم کی جائے گی۔ جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بے باک فیصلے کیے جن کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ انہوں نے عوامی مسائل کا بھی نوٹس لیا، موبائل کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس کی کٹوتی ہو یا پھر نجی سکولوں، کالجز یا ہسپتالوں کی فیس، پینے کا پانی، کرپشن، سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی سمیت دیگر اہم کیسز کا فیصلہ بھی سنایا۔ ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار نے بڑا فیصلہ کیا جس کے بعد ایک مہم شروع ہوئی جو اب ایک تحریک بن چکی ہے۔پاکستان میں مسلسل پانی کی کمی کا نوٹس لیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے اقدامات کریں اور ڈیموں کی تعمیر سے متعلق حکمت عملی پر مبنی رپورٹ تین ہفتے میں پیش کی جائے ، عدالتی حکم پر عملدر آمد کے لئے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق ڈیم فنڈ کے لئے خصوصی اکانٹ کھولا گیا جس میں اب تک 9ارب سے زائد روپے جمع ہو چکے ہیں۔میاں ثاقب نثار کے بطور چیف جسٹس آف پاکستان بعض معمولات پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایسے کام کئے جو ان کے کرنے کے نہیں۔ اور اس وجہ سے سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا گیا۔ لیکن اگرغیر جانبدار ہو کر تمام ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو بطور چیف جسٹس میاںثاقب نثار نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ کیسز نمٹائے۔ صرف 2018ء میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بینچ نے 7 ہزار کے قریب کیسز نمٹائے۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں کسی بھی چیف جسٹس نے آج تک اتنے کیسز کے فیصلے نہیں کیے جتنے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کئے۔انہوں نے کیسز نمٹانے کے علاوہ بہت سے از خود نوٹسز بھی لیے جن سے قوم کو براہ راست فائدہ پہنچا ہے اور مظلوموں کی داد رسی ہوئی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کے بطور چیف جسٹس 69 اقدامات ایسے ہیں جن سے براہ راست پوری قوم اور مظلوم لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔
آخر میں میاں ثاقب نثار کے ملک، آئین اور خوشحالی کے بارے میں نظریات پر تھوڑی بات ہو جائے۔ اس حوالے سے جسٹس میاں ثاقب نثارکا کہنا ہے کہ ملک کی خوشحالی قانون کی حکمرانی میں ہے۔ نظام انصاف معاشرے میں امن کی ضمانت دیتا ہے، وہ کریمنل جسٹس سسٹم میں مزید بہتری کی ضرورت پر زوردیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیس اصلاحات پر ابھی تک زیادہ کام نہیں ہو سکا۔ نظام انصاف کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہم پولیس کو غیر سیاسی اور عوام دوست بنانا چاہتے ہیں، عدلیہ نے عوام کا اعتماد حاصل کیا ہے، پاکستان کے عوام تبدیلی اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، جتنے بھی اقدامات اٹھائے حدود سے تجاوز نہیں تھا۔ عدلیہ کے تمام فیصلے معاشرے کی بہتری کے لیے ہیں۔ اس حوالے سے انہں نے کوئٹہ میں وکلا اور ججز سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں 1908 میں جو قانون بنایا گیا اسے تبدیل کیا جائے، اس قانون پر ہی عمل کر لیں تو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہو سکے گی، عدلیہ سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ انہیں انصاف دلائیں گے لیکن محسوس کر رہا ہوں ہم اپنی صلاحیتیں مطلوبہ معیار کے مطابق استعمال نہیں کر رہے۔ ہم عدل کی بنیادوں کو مضبوط نہیں کر پائے تو اللہ کے سامنے کیسے سرخرو ہوں گے، جس کا حق مارا گیا وہ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور کئی کئی سال تک فیصلے کا انتظار کرتا ہے، اس کا کون ذمہ دار ہے۔ فراہمی انصاف میں تاخیر پر مجھ سمیت ہائیکورٹ اور دیگر عدالتوں کے ججز اس کے ذمہ دار ہیں، جو شخص اپنے حق کے لیے لڑتا ہے اسے کون انصاف دے گا، ہمیں حکومت کی طرف سے تعاون اور وسائل میسر نہیں آرہے لیکن ہمیں اس کے باوجود کام کرنا ہوگا۔ ان کی بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ’چاہے میں ہوں یا کوئی اور ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے، لوگوں کو بروقت انصاف نہ ملے تو لوگ متنفر ہوتے ہیں، اللہ نے توفیق دی ہے کہ آپ انصاف کر سکیں، سمجھ نہیں آتی ہے کہ سول کیسز میں اتنا وقت کیوں لگتا ہے کہ چار چار سال مقدمہ چلتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیران ہوں کہ وہ قابل ججز کہاں گئے جن کے فیصلے موتیوں سے لکھے جاتے تھے، ایسے ججز تھے کہ ان کے فیصلے سپریم کورٹ آتے تو تبدیل نہیں ہوتے تھے۔