کراچی (صباح نیوز، نیٹ نیوز) آئی جی سندھ کی تبدیلی پر وفاق نے ڈاکٹر امیر شیخ، غلام نبی میمن، آفتاب پٹھان کے نام دے دئیے، پیپلز پارٹی کے سنجیدہ حلقوں اور پی ٹی آئی سندھ کی قیادت نے سابق کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ کا نام آئی جی سندھ کے لئے تجویز کر دیا۔ پی ٹی آئی سندھ کی قیادت نے مشتاق مہر اور غلام قادر تھیبو کے ناموں پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے سنجیدہ حلقوں نے بھی صوبائی حکومت کو غیر متنازعہ افسر کی بطور آئی جی تعیناتی کا مشورہ دیتے ہوئے ڈاکٹر امیر شیخ کا نام تجویز کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی سندھ کی قیادت بھی امیر شیخ کے نام پر متفق ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر امیر شیخ کامیاب کراچی پولیس چیف ثابت ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اے ڈی خواجہ اور آفتاب پٹھان کا نام بھی بطور آئی جی زیر غور ہے لیکن ڈاکٹر امیر شیخ آئی جی سندھ کیلئے مضبوط امیدوار ہیں جو صوبے اور وفاق دونوں کیلئے قابل قبول ہیں۔ خیال رہے ڈاکٹر امیر شیخ ایڈیشنل آئی جی کراچی اور ڈی آئی جی ٹریفک کراچی رہ چکے ہیں۔ دوسری جانب صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ سندھ پولیس کا مزاج قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرح ہو گیا ہے کہ جو بولے اس کے کیخلاف کارروائی کرو۔کراچی میں پریس کا نفرنس کرتے ہوئے سعید غنی کا کہنا تھا کہ میرے علاقے میں منشیات کا کاروباربڑھ رہا تھا، کوشش کے باوجود ڈی آئی جی سلطان خواجہ سے ملاقات نہیں ہوسکی، ایڈیشنل آئی جی سے بھی ملاقات کی کوشش کی مگرنہیں ہوسکی۔انہوں نے کہا کہ آئی جی کو ہٹانیکے لیے کابینہ کے فیصلے پربات کی تورپورٹ سامنے آگئی، پریس کانفرنس تو پہلے رکھی تھی پر تھوڑی دیرپہلے ٹی وی پر رپورٹ چلی ہے، 2018 میں ایک انگریزی اخبار میں رپورٹ چھپی تھی اور چنیسرگوٹھ میں سیاستدانوں کی منشیات فروشوں کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ اْس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ کو خط لکھا کہ حقائق کیا ہیں، کارروائی کی جائے لیکن خط کا جواب نہیں دیا گیا، اس کے بعد ایک بار پھر انہیں خط لکھا تاہم پھر بھی جواب نہیں دیا گیا ہمیں دانستہ طورپراس معاملے میں گھسیٹاگیا۔وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر رضوان ایس ایس پی جمشید ٹاؤن لگے تھے تو انہوں نے میرے چھوٹے بھائی و یوسی کے چیئرمین فرحان غنی کو بلایا اور کہا کہ 8 موٹر سائیکلیں لے کردیں اور چنیسرگوٹھ میں چوکی بناکردیں، ساتھ ساتھ پولیس کے لیے مخبری کریں اور علاقے کے لوگوں کے نام دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پولیس دو، 3 جرائم پیشہ افراد کے ساتھ 20 بے گناہوں کو بھی اٹھالیتی تھی، ایک شخص ایم کیوایم چھوڑ کرپیپلزپارٹی میں آیا توپولیس اس کے پیچھے پڑگئی، جرائم پیشہ افراد کو پکڑنا پولیس کاکام ہے۔ان کا کہنا تھاکہ میں سمجھتا ہوں صوبہ سندھ کی پولیس کا مزاج نیب کی طرح ہو گیا ہے، جو آپ کے خلاف بولے اس پر کارروائی کرو۔سعید غنی نے اپیل کہ وزیراعلیٰ سندھ مجھ پر لگے الزامات کی مکمل انکوئری کرائیں، اگر یہ رپورٹ درست ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ آئی جی سندھ کے حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی طرح اپوزیشن پارٹی بن گئی ہے اور آئی جی سندھ ہماری اپوزیشن کے تیسرے رہنما بن کر ابھرے ہیں۔ لہٰذا آئی جی کو اپنے موجودہ طور طریقوں پر پولیس سے استعفیٰ دینا چاہیے تاکہ کھل کر اظہار رائے کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری نوکری کرنی ہے تو اپنے رویے تبدیل کریں، ان رویوں کے ساتھ سرکاری نوکری نہیں ہوسکتی نہ ملازمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں، آئی جی سندھ اس وقت بہت زیادہ متنازع ہیں، پولیس افسران جس انداز سے کام کررہے ہیں وہ تشویشناک ہے، پولیس افسران باقاعدہ اپوزیشن رہنماؤں کو بریف کررہے ہیں۔