واشنگٹن +اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی )وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہاہے کہ امریکا افغانستان سے ذمہ دارانہ طریقے سے فوجیوں کا انخلا کرے اور 80 کی دہائی کی غلطی کو دوبارہ نہ دہرائے، حکومت اور وزیراعظم کا بڑا صاف موقف ہے کہ مودی سرکار ایک قدم آگے بڑھائے گی تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے،ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات میں میرا پہلا مقصد تنامیں کمی لانا تھا، خطے میں قیام امن کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کوششیں کرتے رہیں گے پاک امریکا تعلقات کی تاریخ دونوں ممالک کے مل کر کام کرنے کی قدر و اہمیت کی شاہد ہے۔جمعہ کو امریکی ٹی وی چینل کو اپنے ایک انٹرویو میں شاہ محمود کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کروانے میں پاکستان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، یہ ثالثی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی درخواست کے بعد شروع کی گئی۔آئی ایس آئی کے حقانی نیٹ ورک سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمیں مستقبل اور ماضی کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارا قومی ادارہ (آئی ایس آئی) افغانستان میں امن لانے کے لیے سپورٹ کر رہا ہے اور اپنا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔انٹرویو کے دوران وزیر خارجہ سے سوال پوچھا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھارت میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کریں گے جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت اور وزیراعظم کا بڑا صاف موقف ہے کہ مودی سرکار ایک قدم آگے بڑھائے گی تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔امریکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو کے دوران شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ایران امریکا تنازعہ خطے کے لیے نہایت خطرناک ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، حسن روحانی اور جواد ظریف بھی تنا میں اضافہ نہیں چاہتے ۔علاوہ ازیں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں امریکی ہم منصب مائیک پمپیو سے ملاقات کی ہے۔دفتر خارجہ مطابق دوران ملاقات دو طرفہ پاک امریکہ تعلقات، اہم علاقائی و باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ ء خیال کیا گیا۔وزیر خارجہ ،مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی اور خطے میں امن و امان کی صورتحال کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں،وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے حالیہ دورہ ء ایران و سعودی عرب کے دوران ہونیوالی ملاقاتوں کی تفصیلات سے امریکی وزیر خارجہ کو آگاہ کیا۔ پاکستان ،خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پر عزم ہے ۔وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے گزشتہ پانچ ماہ سے 80لاکھ کشمیریوں کو کرفیو کے ذریعے محصور کر رکھا ہے -مقبوضہ جموں و کشمیر میں ذرائع مواصلات پر تاحال پابندی عائد ہے تاکہ اصل حقائق کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا جائے ،امریکہ اور پاکستان کا "پرامن جنوبی ایشیا" کا خواب اس وقت تک شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اسی لاکھ کشمیریوں کے استصواب رائے سے حل نہیں کیا جاتا ،افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ کاوشوں سے ،چالیس سالہ طویل محاذ آرائی کے بعد سیاسی حل کے ذریعے "امن کی نوید سنائی دے رہی ہے پاکستان ، خلوص_نیت کے ساتھ "افغان امن عمل"کی اس مشترکہ ذمہ داری کو نبھا رہا ہے۔تاریخی اعتبار سے جنوبی ایشیائی خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ کاوشیں ہمیشہ سود مند ثابت ہوئی ہیں اور دونوں ممالک کیلئے یکساں مفید رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے جامع دو طرفہ پاک امریکہ تعلقات کے وڑن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ،امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے "افغانستان کے سیاسی تصفیے،"افغان امن عمل" اور پرامن ہمسائیگی کیلئے پاکستان کی مخلصانہ، مصالحانہ کاوشوں کو سراہا۔واشنگٹن میں منعقدہ کمیونٹی تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس امید کا اظہار کیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان ہونے کے ناطے ،پاکستان اور بھارت دوطرفہ مسائل پرامن انداز سے حل کریں گے۔ ہمارا خطہ کسی نء محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔کل دوسری مرتبہ ،پچاس سال کے بعد یہ مسئلہ پہلی دفعہ اس وقت سیکورٹی کونسل میں اٹھایا گیا جب ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ اقدام مسلط کیے اور ہمارے نزدیک یہ اقدام نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ خطے کے امن و امان کے لئے بھی بہت بڑے خطرے کا مؤجب ہوں گے۔ میری درخواست کو چین کی حمایت حاصل ہوئی اور سیکورٹی کونسل میں اقوام متحدہ سیاسی و قیام امن سے متعلق محکموں کے مبصرین سے بریفنگ لی گئی، جس میں بہت سے اہم نکات اٹھائے گئے۔ اقوام متحدہ کے فوجی ،مبصرین کی جانب سے پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون کئے جانے کا اعتراف ہوا جبکہ ہندوستان کے بارے میں ایسا نہیں کہا گیا۔2019 سے اب تک لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کی تعداد 3000 سے زیادہ ہے بھارت نے وہاں یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول کی طرف لوٹ رہے ہیں۔جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں سیاسی نمائیندوں کو، گرفتار حریت رہنماؤں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ذرائع ابلاغ پر پابندی کے سبب اصل حقائق سامنے نہیں آ سکے۔ اس پر بھی واضح جواب سیکورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کی جانب سے سامنے آیا کہ یہ متنازعہ مسئلہ دہائیوں سے اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے ایجنڈے پر ہے ، ہمارا موقف بالکل واضح ہے پاکستان نے ہمیشہ امن اور مذاکرات کی بات کی ہے لیکن بھارت کا رویہ مخاصمانہ رہا -بھارت نے صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کیا۔ امریکی نائب وزیردفاع جان رو نے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات، جس میں پاک امریکہ،دفاعی تعلقات اور خطے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق امریکی نائب وزیر دفاع نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے پاک امریکہ دفاعی تعاون کے مختلف پہلوں اور وقوع پزیر علاقائی صورتحال پر بات چیت کی۔ نائب وزیر دفاع نے وزیر خارجہ کو دونوں ممالک کے درمیان دفاع سے متعلقہ جاری تعاون پر آگاہ کیا۔ وزیر خارجہ نے امریکی نائب وزیر دفاع کو پاکستان کی جانب سے جنوبی ایشیائی خطے میں قیام عمل کیلئے کی جانے والی مختلف کاوشوں سے آگاہ کیا۔ وزیرخارجہ نے کہاکہ پاکستان کے لئے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (آئی ایم ای ٹی) پروگرام کی بحالی کا امریکی فیصلہ علامتی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے اور دوطرفہ فوجی تعاون کی مزید بحالی کے لئے اولین خوش آئند اقدام ہے۔ وزیر خارجہ نے امریکی نائب وزیردفاع کو علاقائی ممالک کے اپنے حالیہ دوروں سے آگاہ کرتے ہوئے کشیدگی میں کمی اور بات چیت کی ضرورت پر زوردیا۔ انہوں نے کہاکہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پورے خطے کیلئے خطرات کا موجب بن سکتی ہے، اسی لئے پاکستان نے کشیدگی کم کرنے اور امن کاوشیں بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان اپنے ہمسائے میں کسی بھی قسم کے عدم استحکام کے امکانات پر شدید تشویش میں مبتلا ہے اور امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے پرامن حل کی تلاش میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ امریکی انڈر سیکرٹری دفاع نے وزیر خارجہ کو پاک امریکہ دفاعی تعاون کی موجودہ نوعیت سے آگاہ کیا جبکہ وزیر خارجہ نے انہیں پاکستان کی جانب سے جنوبی ایشیائی خطے میں قیام _عمل کیلئے کی جانے والی مختلف کاوشوں سے آگاہ کیا۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین دفاعی اور سیکورٹی تعاون، ہمارے دو طرفہ تعاون کی اہم کڑی ہے ۔امریکہ کی جانب سے "بین الاقوامی عسکری تعلیم و تربیت پروگرام(IMEP) کی بحالی کا فیصلہ ہمارے نزدیک بہت اہمیت کا حامل ہے اس فیصلے سے دونوں ممالک کے مابین عسکری تعاون کی نء راہیں کھلیں گی ۔مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پورے خطے کیلئے خطرات کا موجب بن سکتی ہے اسی لئے پاکستان نے کشیدگی کم کرنے اور امن کاوشیں بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ۔وزیر خارجہ نے امریکی انڈر سیکرٹری دفاع کو اپنے حالیہ دورہ ئ ایران و سعودی عرب کی تفصیلات بتاتے ہوئے ،ایران امریکہ کشیدگی میں کمی لانے اور خطے میں قیام _امن کیلئے پاکستان کی جانب سے متحرک اور مثبت کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو چھٹے ماہ میں داخل ہو چکا ہے۔ جہاں حالات خراب تھے وہاں سفیروں کو نہیں لے جایا گیا۔ سلامتی کونسل میں کہا گیا کہ پاکستان میں رسائی دی جاتی ہے۔ بھارت میں رسائی نہیں دی جاتی۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو سے کہا ہے کہ وہ حالات کا نوٹس لیں۔ دوطرفہ تعلقات سے بھارت کترا رہا ہے پاکستان نہیں۔ بھارت نے کوئی جھوٹا آپریشن کیا تو ہمیں اس کا جواب دینا پڑے گا۔ سٹیزن ایکٹ کے بعد خدشہ ہے کہ بھارت کوئی جھوٹا آپریشن نہ کرے۔ پاکستان کا ارادہ ثالثی کا نہیں نہ ہم اس پوزیشن میں ہیں۔ ایران اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے متعلق پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔ امریکہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دلوانے کیلئے بھارت پر دباؤ ڈالے۔ کشیدگی کا خاتمہ چاہتے ہیں امن کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی خطہ کیلئے خطرہ، امریکہ افغانستان سے فوجیں نکال کر غلطی نہ دہرائے: شاہ محمود
Jan 18, 2020