زندگی خواب کی مانند ہے۔ کسی نے دنیا کو ایک سٹیج اور انسان سمیت مخلوق کو اسکاایکٹر قرار دیا، اپنا اپنا کردارادا کرکے یہ خلقِ خداخالقِ کائنات کے حضور پیش ہو جاتی ہے۔ آپ عمر کے جس حصے میں بھی ہیں۔ ماضی ایک پَل نظر آتا ہے۔ مگر حساب ہر پَل کا دینا ہو گا۔موت پر ہمارا اٹل یقین ہے۔کوئی نہیں کہتا،کبھی نہیں مرنا مگر یہ سوچ کہیں نہ کہیں ضرور جاگزیں ہے:ابھی نہیں مرنا۔اُس حساب کو مشکل یا آسان بنانا انسان کے ہاتھ میں ہے۔تکرار کے دوران بہلول نے ہارون رشیدکویہ گُر سمجھانے کی کوشش کی۔گرم پتھر منگوایا گیا۔بہلول نے اس پر ہاتھ رکھ کر اپنے ’اثاثے‘جھونپڑی جوتے تَن کے کپڑے،چشم زدن میںگن دیئے۔ہارون کی جائیداد کا شمار گھنٹوں میں ہونا تھا،اُس کاہاتھ چند ثانئے بعد ہی جلنے لگا۔
ہمارے بڑے لوگ جیل جاتے ہیں تو وہیں بیٹھ کر سودوزیاں کا حساب لگاتے ہیں۔شاید ہی کسی کو اپنے اعمال پر پچھتاوا ہومگر کچھ اپنے کمالات میں رہنے والی کسر پوری کرنے کا تہیہ کر رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں جو لیڈر جیل گئے وہ رہا ہوئے یا بدستور اسیر ہیں وہ اس کی عملی تصویر ہیں۔مگر بھٹو ضرور ایسے تھے جو اپنے بہت سے اعمال پر نادم تھے ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ یہ کتاب ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں لکھی۔ ایک اور کتاب Roumors and Reality بھی انکے نام سے چھپی مگر وہ انہوں نے نہیں بلکہ بینظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کی یادداشتوں کو یکجا کر کے چھپوائی۔ یہ انکشافات اور اختلافات سے بھرپور ہے۔
پی پی پی کے کتنے لوگوں نے یہ کتاب پڑھی ہو گی؟ چند لیڈروں کے گھروں میں مطالعہ گریزی کے کلچر کی نذر ہوئی پڑی ہو گی۔ پڑھنے سے خصوصی طور پر کتابوں کے مطالعہ سے ہم بطور معاشرہ بدکتے ہیں البتہ کچھ لوگ بشمول بڑے چھوٹوں اور لیڈروں کے مطالعہ کو معاملات فہمی کیلئے جزولاینفک گردانتے ہیں۔ فخر امام اور بیگم عابدہ سے ملاقاتوں میں انکے وسیع المطالعہ ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ سیدہ عابدہ تو کئی کتابوں کی بھی مصنفہ ہیں۔ نوے کی دہائی میں میاں نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو محترمہ نے اظہار افسوس کے دوران خود میاں صاحب کو بھی اس المیے میں کسی حد تک حصہ دار ٹھہراتے ہوئے یہ اشعار سنائے…؎
کُْج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
میاں صاحب نے پوچھا ’’یہ آپ کے شعر ہیں؟ ’’نہیں منیر نیازی کے ہیں‘‘۔ منیر نیازی کون ہے؟
قیوم نظامی بھی عابدہ و امام کے حلقہ احباب میں سے ہیں اور انہی کی طرح صاحبِ مطالعہ اور اہل علم ہیں۔نظامی صاحب کے توسط سے جسٹس ارشاد حسن خان کیساتھ ملاقات ہوئی۔ تھوڑی سی بے تکلفی ہونے پر پوچھا۔ جناب آپ نے مشرف کو بن مانگے ترمیم کی اجازت اور انتخابات کیلئے تین سال کی مہلت دیدی۔ امکان تھا وہ غصہ کر جائینگے۔ انہوں نے بڑے دھیمے لہجے میں پوچھا؟ ’’کیا آپ نے وہ فیصلہ پڑھا‘‘۔ہم تو بس ہیڈ لائنز پڑھتے ہیںاور تجزیوں کا طومار باندھ دیتے ہیں۔میرے نفی میں جواب پرانہوںنے شکوہ کیا کہ لوگ فیصلے پڑھے بغیر تبصرے ہی نہیںمنشا کے برعکس فیصلہ آنے پر طعن بھی کرتے ہیں۔اس کیساتھ ہی انہوں نے دبنگ لہجہ میں جواب دینا شروع کیا:ہم نے کہا مشرف کے معاشی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے (جو تقریباًمسلم لیگ (ن) کا ہی تھا ) آئین میں اگر پرویژن نہ ہو تو ترمیم کر سکتے ہیں۔ تین سال کی مہلت ظفر علی شاہ کیس میں انکے وکیل خالد انور کی مشاورت سے دی گئی تھی۔ الیکشن کمشن بھی الیکٹورل رول کی عدم موجودگی کے باعث جلدالیکشن کرانے تیار نہیں تھا۔ ہم نے تین سال دیئے جس میں سے چھ ماہ گزر چکے تھے۔ جن لوگوں نے فیصلہ پڑھا‘ وہ مطمئن اور جنہوں نے نہیں پڑھا وہ اب تک طعن و تشنیع کر رہے ہیں۔
آئیے اصل موضوع کی جانب۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جیل کی تنہائیوں اور نارسائیوں میں غور و فکر کا لامحدود موقع ملا۔ اس دوران ان کو یہ بھی یاد آیا ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اسد اللہ مینگل کے اغوا کی خبر شائع ہوئی۔ وزیراعظم نے بازپرس کی تو پتہ چلا وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھا اور مقابلے میں مارا گیا۔ بھٹو چیف ایگزیکٹو تھے۔ مصلحتاً خاموش ہو گئے۔ بھٹو صاحب کو اس واقعہ پر پچھتاوا تھا۔وہ اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں اگر میں نے واقعہ کی انکوائری کرائی ہوتی اور معاملہ قانونی طور پر منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تو میں آج اس طرح گھٹنوں میں سرد دیئے حسرت اور یاس کی تصویر نہ بنا بیٹھا ہوتا۔ آج اُس لیول کے لیڈروں میں سے شاید ہی کسی کو اپنے منحوس اعمال اور کرموں پر افسوس اور پچھتاوا ہو۔ کئیوں کوتو کرتوتوں پر فخر بھی ہے۔
بھٹو جیل میں بیٹھ کر پچھتاتے مگر انکے پاس اصلاح کا موقع اور گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ میاں نوازشریف کو کچھ لوگ بھٹو سے بڑا لیڈر مانتے ہیں۔ اس لحاظ سے ضرور بڑے لیڈر ہونگے: قید ہوئی،جادو کی چھڑی لہرائی، ضمانت ملی اور باہر بھی چلے گئے۔وہاں معالج بھی ایسے ’اوتار‘ ملے جو ہوا خوری سے پاکستان میں لاعلاج مرض کا علاج کررہے ہیں اور انفیکشن کے خدشے پر ہسپتال میں داخل کرانے سے روکا گیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کو کسی نے باور کرا دیا تھا کہ قبر ایک بندے دو ہیں۔ مشرف کو بھی باور کرانے کی کوشش کی گئی ہوگی۔ اب وہ سر پیٹ رہے ہونگے۔ آئندہ شاید مارشل لاء نہ لگے۔ خدا کرے نہ ہی لگے۔ اگر کسی حکمران کے ’’اعمال صالحہ‘‘ کے باعث لگا تو ضیاء الحق والے فارمولے کے اطلاق میں تاخیر شایدنہیں ہوگی۔
بھٹو کے پاس اصلاح کی گنجائش نہ تھی۔ آج کے لیڈرانِ کرام کے پاس ضرور ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نوے سے کل تک تین تین بار اقتدار میں آئے‘ لیکن لیڈروں کے اعمال اور عزائم میں فرق آیانہ چاہنے والوں کی چاہت کم ہوئی۔ آج بھی کسی کو ’ پرسنٹ‘کہہ کر معصوم قراردیا جاتا ہے، کسی کو یہ کہہ کر دیوتا کا درجہ کہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔ دعا ہے اللہ ہمارے لیڈروں کے ضمیر روشن کرے، قبیحات پر پچھتاوے اور مداوے کی توفیق عطا فرمائے۔وطن کی اُڑائی پائی پائی لوٹ آئے جس سے پاکستان جَگ مَگ کراُٹھے۔