ترقی معکوس اور حقیقی ترقی

جنرل مشرف کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جن ججوں نے مشرف کے حق میں فیصلہ دیا ہے‘ وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ جنرل مشرف پر 2007ء میں ہونیوالے جرم کے الزام میں جس قانون کے تحت ٹرائل ہورہا تھا وہ قانون بعد میں بنا اور کابینہ کی منظوری کے بغیر ذاتی حیثیت میں بننے والا بنچ ہی غیر قانونی تھا جس نے جنرل مشرف کو سزا دی تھی۔
ملک نے حقیقی ترقی ہی صرف ایوب خان اور جنرل مشرف کے ادوار میں کی۔ ایوب خان نے پاکستان کے آبی وسائل کا بھرپور استعمال کیا اور ان کے کئے گئے کاموں سے آج تک ملک فوائد حاصل کر رہا ہے اور سستی ترین بجلی جو بھی پیدا ہورہی ہے وہ جنرل ایوب خان کے دور میں بننے والے ڈیموں کی وجہ سے ہے۔ ایوب خان نے نہریں پختہ کیں اور دریاؤں پر ایسے وسیع اور مضبوط پل بنائے جنہیں آج تک کسی سیلاب سے نقصان نہیں پہنچا۔ ایوب خان نے حب ڈیم بنایا جس کے باعث لسبیلہ ضلع بلوچستان کی زمینیں سونا اگلنا شروع ہوئیں۔ ایوب خان کے دور میں ڈالر اور روپے کی قدر برابر تھی اور ملک پر کوئی قرض نہیں تھا۔ مہنگائی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ امریکہ سمیت دنیا بھر میں پاکستان برابری کی بنیاد پر بات کرتا تھا۔
جنرل مشرف کے دور میں آئیڈیل ترین بلدیاتی نظام رائج کرکے اختیارات اور وسائل ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک منصفانہ طور پر تقسیم کئے گئے اور ملک بھر کے شہروں اور دیہات میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ جنرل مشرف کے دور میں کراچی میں 50ارب روپے خرچ کرکے کراچی شہر کو چمکا دیا گیا تھا اور ان کے دور میں ناظم کراچی کو ایشیاء کے بہترین ناظم کا ایوارڈ ملا۔ اب وہی کراچی ہے جو گندگی کے ڈھیر کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ اب تو اندرون سندھ‘ کراچی‘ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ ان مسائل کا حل صرف جنر ل مشرف کے لائے گئے بلدیاتی نظام میں ہی ہے۔
جنرل مشرف کے ہی دور میں ایشیائی ترقیاتی بینک‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو قبل ازوقت ادائیگی کرکے ملک کو ان اداروں کی ڈکٹیشن سے نجات دلادی تھی۔عالمی مالیاتی ادارے قرض دینے سے پہلے بجلی گیس اور دیگر اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں جس سے مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ مشرف اپنے دور میں خود ان چیزوں کی قیمتوں کا تعین کرتے تھے اور مہنگائی نہیں تھی۔ یہ بھی تلخ مگر حقیقت ہے کہ جب بھی فوجی حکومت آئی ہے ملک کے بڑے قومی ادارے پی آئی اے‘ پی ایس او‘ ریلوے اور اسٹیل ملز منافع بخش بن جاتے ہیں اور سیاسی ادوار میں یہی ادارے ملک کی معیشت پر بدترین بوجھ ہوتے ہیں۔ ان اداروں کو ملکی معیشت پر بوجھ بنایا ہی سیاسی اور ضرورت سے زیادہ نااہل افراد کی بھرتیوں نے ہے جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں جب جنرل عبدالقیوم اسٹیل ملز کے چیئرمین تھے تو اسٹیل ملز کے اکاؤنٹ میں 10ارب روپے سرپلس پڑے تھے۔جنرل مشرف کے دور میں امن و امان کی صورتحال بھی مثالی تھی اور ان کے پورے دور میں سندھ میں صرف ایک اغواء برائے تاوان کا کیس سامنے آیا تھا۔مشرف دور میں نہروں کی بھل صفائی ہوتی تھی جس سے کسانوں کو وافر پانی دستیاب ہوتا تھا اور انہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی کوشش کی لیکن نام نہاد حب الوطن سیاستدانوں نے ان کی مخالفت کی۔
ن لیگ نے مشرف کا ٹرائل کرنے کا غلط فیصلہ کیا اور ایسی ہی تصادم کی پالیسی کے باعث 2016ء سے آج تک ن لیگ مسلسل ترقی معکوس سمت میں چل رہی ہے اور ن لیگ کے ایسے لوگ جن پر مقدمات ہیں اور انہیں علم ہے کہ وہ رہا نہیں ہوسکتے تو وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے فوج کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ن لیگ میں چوہدری نثار بالکل درست تھے اور وہ بارہا پارٹی کی قیادت کو یہی سمجھاتے رہے کہ عسکری قیادت سے ٹکراؤ کی پالیسی درست نہیں اس سے پارٹی اور ملک کو نقصان ہوتا ہے مگر پارٹی میں ایسے لوگوں کو زیادہ اہمیت دی گئی جو فوج سے ٹکراؤ کے حق میں تھے اور آج نتائج سب کے سامنے ہیں کہ ن لیگ صوبائی حکومت تک نہ بناسکی۔ اب ملٹری ایکٹ میں ترمیم پر ن لیگ نے جس طرح مناسب رویہ اختیار کیا اگر یہی طرز عمل اختیار کیا جاتا جو چوہدری نثار بار بار سمجھارہے تھے تو آج پارٹی اس انجام کا شکار نہ ہوتی۔
حکمراں جماعت کے شعلہ بیان ہی دراصل حکومت کے دشمن ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اب تک حکومت میں نہیں بلکہ اپوزیشن میں ہے۔ رانا ثناء اﷲ نے ضمانت کے بعد پریس کانفرنس اور پارلیمنٹ میں قرآن پاک اٹھاکر اپنی بے گناہی پر بات کی۔ رانا ثناء اﷲ کو پارلیمنٹ میں ایک بار اس سے متعلق بات کرنے کے بعد دوبارہ اس موضوع پر بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اگر دوبارہ بات بھی کرلی تھی تو شہریار آفریدی کی جانب سے سخت جواب دینا درست نہیں تھا۔
رانا ثناء اﷲ کے متعلق عدالتوں نے ہی فیصلہ کرنا ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی پر بے بنیاد الزام لگاکر اسے طویل عرصے تک قید رکھنا کس قدر سنگین جرم ہے اور ایسے جرم کرنے والوں کو کب سزائیں ملیں گی؟ اور بے گناہ قید کے بعد رہائی پانے والوں کو اس کا معاوضہ دینے کا قانون بننا چاہئے۔ میرے گاؤں سے تعلق رکھنے زلفی بخاری کے والد کو برطانیہ میں جھوٹے الزام میں قید کیا گیا اور جب وہ بے گناہ ثابت ہوئے تو ہرجانے کے کیس میں انہیں حکومت سے اربوں روپے کے مساوی رقم ملی۔ہمارے ہاں بھی حکومت اپوزیشن سے خوشگوار ماحول پیدا کرے اور پارلیمنٹ فوری طور پر ایسا قانون منظور کرکے نافذ کرے کہ کسی بے گناہ کو نہ تو بند کیا جاسکے اور نہ ہی ایسا کرنے والے سخت سزا سے بچ سکیں۔

ای پیپر دی نیشن