لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں اہلکاروں کی کرپشن کے خاتمے کیلئے ناقابل اصلاح اہلکاروں کے تعین کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر ان اہلکاروں کے سروس ریکارڈ کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی۔ تاکہ ان اہلکاروں کی فہرستوں کو حتمی شکل دینے کے بعد ان کے خلاف انضباطی کارروائی کا آغاز کیا جا سکے۔ اعلی عدلیہ کی نشاندہی پر پنجاب کی ماتحت عدلیہ کے اہلکاروں کی کرپشن کے خاتمے کیلئے ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نے ایڈمنسٹریشن وانگلش برانچز کے اہلکاروں کو تین ماہ میں فہرستیں مکمل کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ حتمی شکل دیئے جانے کے بعد یہ فہرستیں ڈی جی ویجیلینس کو بھجوا دی جائیں گی۔ ماتحت عدالتوں کے نا قابل اصلاح اہلکاروں کا تعین کر کے ان کو سزا دینے کا مقصد ماتحت عدالتوں سے کرپشن کا خاتمہ ہے۔ جس کے بارے میں اعلی عدلیہ کی طرف سے متعدد بار نشاندہی کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو اس سے متعلق ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ عدالتی و قانونی حلقے ماتحت عدالتوں کے اہلکاروںکی کرپشن کو نیشنل جوڈیشل پالیسی کے اہداف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔ ضلع کی سطح سے لے کر مرکز تک ہونے والی کانفرنسز میں بھی بار ایسوسی ایشنز، سول سوسائٹی اور دیگر سٹیک ہولڈرز نے ماتحت عدالتوں کے اہلکاروں کی کرپشن ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے بار ایسوسی ایشنز سے بھی تعاون حاصل کیا جائے گا۔ با خبر عدالتی ذرائع کے مطابق پنجاب بھر کی ماتحت عدالتوں میں متعلقہ سیشن جج کی ہدایت پر نا قابل اصلاح ملاز مین کی فہرستیں تین کیٹگریز کے تحت بنائی جائیں گی۔ پہلی کیٹٹگری میں ماتحت عدالتوں کے وہ اہلکار شامل ہوں گے جن کو کرپشن کے الزام میں انکوائری کا سامنا رہا ہے اور وہ نا مکمل انکوائری کے باعث ابھی تک اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ دوسری کیٹگری میں ان عدالتی ا ہلکاروں کو شامل کیا جائے گا جن کو رشوت لینے کی شکایات کے بعد وارننگ بھی دی گئی مگر ان کے خلاف پھر شکایات کا سلسلہ جاری رہا۔ جبکہ تیسری اور آخری کیٹگری میں اچھی شہرت نہ رکھنے والے اہلکاروں کو شامل کیا جائے گا۔ ان تمام کیٹگریز کے اہلکاروں کے سروس شروع کرنے سے پہلے اور موجودہ اثا ثوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا جائے گا تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ راتوں رات امیر بننے والے اہلکاروں کے پاس کہاں سے دولت آئی۔ اعلی عدلیہ کی خصوصی ہدایت پر ماتحت عدالتوں پر بننے والی فہرستوں اور تحقیقات کے نتیجے میں جن اہلکاروں کو نا قابل اصلاح قرار دیا گیا ان کو ملازمت سے برطرفی کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔