رونا ہے کیوں برپا، چینی ساٹھ روپے لیکن کیسے اور خواجہ سعد رفیق کا آدھا سچ!!!!

نہایت افسوس ہے کہ ملائشیا سے واپس آنے والے پاکستانی ائیر پورٹ پر رو رہے ہیں، متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانی اپنے شناختی کارڈوں کو رو رہے ہیں یعنی جو ملک میں آ رہا ہے وہ بھی رو رہا ہے اور جو بیرون ملک بیٹھا ہے وہ بھی رو رہا ہے اتنے بڑے پیمانے پر رونا دھونا تو ایسے ہے جیسے یہ قومی ضرورت ہے۔ خبر کچھ یوں ہے کہ ملائشیا میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا طیارہ قبضے میں لیا گیا تو اس طیارے کے مسافروں نے وطن واپس پہنچ کر قومی ایئر لائنز کی خوب تعریف کی ہے۔ ہمارے وزیر ہوا بازی کو پائلٹوں کے لائسنس جعلی ثابت کروانے سے فرصت ملے تو دل کی تسلی کے لیے ان مسافروں کی باتیں ضرور سنیں کیونکہ جس کام کے لیے وہ وزارت سنبھالے ہوئے ہیں یہ مسافر ان کی کارکردگی کا سب سے اچھا اور غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔ دوسری خبر بھی رونے دھونے سے متعلق ہی ہے خبر کچھ یوں ہے کہ شناختی کارڈ پاکستان سے متحدہ عرب امارات پہنچانے والی کوریئر کمپنی سے معاہدہ ختم ہو گ?ا ہے۔ معاہدہ ختم ہونے کی وجہ سے ابوظہبی میں سفارت خانے اور دبئی میں قونصل خانے کو پاکستانیوں کے شناختی کارڈ موصول نہیں ہو رہے اس وجہ سے  ویزے کی مدت میں توسیع کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہے۔ یعنی رونا دھونا وہاں بھی ہو رہا ہو گا۔ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو ممکن ہے چند دنوں میں وہاں سے پاکستانی احتجاجی وڈیوز شیئر کر دیں۔ حکومت نے عوام کو رونے دھونے کی اضافی ذمہ داری دی ہے۔ ہم نے ہر جگہ ، ہر سطح، ہر موقع پر رونا ایسے لازم کر لیا ہے جیسا کہ ولیمے کا کھانا ہو اور روتے بھی اس بیاختیار انداز میں ہیں جیسے لوگ ولیمے کے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ دونوں کام کرتے ہوئے ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ کیا کریں سیاست دانوں کی بھوک آج تک ختم نہیں ہو سکی چونکہ قومی خزانے پر ٹوٹنا سیاست دانوں کا محبوب مشغلہ ہے سیاست دانوں کے اس رویے کو عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور وہ بھی ولیمے کے کھانے پر، دربار کی دیگ پر، کہیں تقسیم ہونے والی نیاز پر ایسے ہی ٹوٹتے ہیں جیسے ان کے رہنما قومی خزانے پر حملہ کرتے ہیں اور سب کچھ کھا کر ایمانداری کا درس دیتے ہیں۔ مزے کی بات ہے بعد میں رونا دھونا بھی کرتے ہیں جیسا کہ ان دنوں پاکستان ڈیمو کریٹک کا رونا دھونا جاری ہے۔ ان کی چیخیں تو اقتدار سے دور ہونے کی وجہ سے نکل رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی چیخ و پکار پر کہیں نہ کہیں سے جواب ضرور آتا ہے۔ 
ایک غریب عوام کا رونا دھونا ہی کسی کو سنائی نہیں دیتا بھلے وہ ملائشیا سے واپسی پر رو رہے ہوں، وہ متحدہ عرب امارات کے ویزے بند ہونے پر رو رہے ہوں یا پھر یو اے ای میں موجود پاکستانی اپنے شناختی کارڈز کو رو رہے ہوں ان غریبوں کی کوئی نہیں سنتا۔ کاش کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے چند اہم اراکین کو بھی ایسے ضرورت مندوں میں شامل کر دیا جائے ہو سکتا ہے ان کی وجہ سے ہی غریبوں کی شنوائی ہو جائے۔ دیکھیں  جی متحدہ عرب امارات میں موجود ہزاروں پاکستانیوں کو شناختی کارڈ پہنچانے والی کورئیر کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہو گیا ہے یقینی طور پر حکومت پیسے بچانے کے لیے کوئی ایسا ناقابلِ قبول فارمولا تیار کر رہی ہو گی جس کے ذریعے نہ تو کام ہو گا نہ ہی مسئلہ حل ہو گا جب پانی سر سے گذر جائے گا پھر حکومت پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر رضامند ہو جائے گی۔ جیسے ہم ہر وقت رونے میں مشہور ہو رہے ہیں موجودہ حکومت بھی ہر معاملے میں دنیا بھر سے تنقید سننے کو محبوب مشغلے کے طور پر اپنا چکی ہے۔ ہر سیدھا کام الٹے طریقے سے کرنا پی ٹی آئی کا حکومتی نشان بن چکا ہے۔ انتخابی نشان "بلا" تو حکومت میں آنے سے پہلے کا ہے۔ پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعد یوٹرن، ہر کام میں نقصان، ہر سلجھے کام کو الجھانا سمیت کئی حوالوں سے  منفرد پہچان قائم کر لی ہے۔ اسے کرکٹ کی زبان میں آل راؤنڈر بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال حکومت کو وقت ملے تو عوام کو اس رونے دھونے سے نکال کر خوشیوں کا سامان بھی کرے۔ جنہیں رلانے کے دعوے کے ساتھ حکومت میں آئے تھے وہ تو لندن میں "کافی" سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور جنہوں نے ووٹ دیا تھا ان کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کو کسی نے طعنہ دیا ہے کہ ان کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہوا ہے۔ ویسے خواجہ صاحب ہمیشہ سے اپڈیٹ ہی رہتے ہیں اور وہ اپ گریڈ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اپ اینڈ ڈاؤن سے بخوبی واقف ہیں بالخصوص گذشتہ بیس برسوں میں انہوں نے خاصے اپس اینڈ ڈاونز دیکھے ہیں اس لیے انہیں یہ طعنہ نہ ہی دیا جائے تو بہتر ہے۔ ویسے جو اپڈیٹ ہو جائے اسے طعنہ دینے کے بجائے جو اپڈیٹ ہونے سے رہ گئے ہیں ان پر کام کرنا چاہیے۔ ملک و قوم کو خواجہ سعد رفیق کے اپڈیٹ ہونے کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ بعض معاملات میں اختلاف کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک تجربہ کار سیاسی کارکن ہیں اور اپنی جماعت کو نچلی سطح پر منظم کرنے کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ ایک تجربہ کار سیاسی کارکن ہونے کے باوجود ان کی سیاسی مجبوریاں بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عوام کو اکثر تصویر کا ایک رخ ہی دکھاتے ہیں جیسا کہ انہوں نے موجودہ حکومت کو اناڑی کہا ہے حالانکہ یہ حکومت کھلاڑیوں کی ہے دنیا اس حقیقت کو کسی شک و شبہ کے بغیر تسلیم کرتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق دنیا کو یہ بھی بتائیں کہ قومی خزانے کو جس بے رحمی سے ان کی حکومت نے لوٹا ہے اگر وہ یہ ظلم نہ کرتے تو نہ کوئی اناڑی آتا نہ کوئی کھلاڑی آتا۔ اب ظلم تو یہ ہوا ہے کہ حکومت کی نالائقی نے خواجہ سعد رفیق اور ان کی جماعت کو بھی باتیں کرنے کا موقع دیا ہے اگر کھلاڑی ایکسر سائز سے نکل کر میچ کھیلنے میدان میں اترتے اور کارکردگی بھی دکھاتے تو کوئی کھلاڑیوں کو اناڑی نہ کہتا۔ خواجہ سعد کو خواجہ آصف کا غم کھائے جا رہا ہے وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اب تک ہونے والے تمام انتخابات شفاف ہوئے ہیں، کیا ان کے قائدین نے ملک کو قرضوں کے جال میں نہیں پھنسایا، ان کے دور حکومت میں وہ کون تھے جنہوں نے ختم نبوت صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے قانون پر سازش کی، وہ کون تھے جن کو سزا دینے کا مطالبہ مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی نے کیا تھا، ان لوگوں کو سامنے کیوں نہیں لایا گیا، ڈان لیکس کے ذمہ داروں کو کیوں چھپایا گیا، اس سازش کے پیچھے کون تھا؟؟؟
خبر ہے کہ کین کمشنر پنجاب نے حکومت کو خط لکھا ہے کہ "گنا چوری چھپے خریدا جا رہا ہے اور چینی کی فروخت بھی ہو رہی ہے۔ حکومت اس چوری کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی کی زائد قیمت کا ذمے دار مڈل مین کو قرار دے دیا ہے۔" اس خط کے بعد یہ واضح ہو چلا ہے کہ رواں برس بھی حکومت کو چینی کی مناسب قیمتوں پر بلا تعطل فراہمی کے لیے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مافیاز حکومت کے خلاف متحد ہیں بالخصوص سندھ اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ سیاستدان جو چینی کے کاروبار سے منسلک ہیں ان کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ چینی کے کاروبار سے جڑے بہت کم سیاستدانوں کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے ہے۔ اس حوالے سے سب سے نمایاں جہانگیر ترین ہی تھے لیکن انہیں دیوار سے لگایا جا چکا ہے اب وہ بھی کم از کم حکومت کو فائدہ پہنچانے والے کسی کام کا حصہ تو نہیں ہوں گے ان کے بعد خسرو بختیار کا نام بھی آتا ہے لیکن اکثریت میں اس کاروبار سے منسلک افراد کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے اور وہ اس کاروبار کے ذریعے بھی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اسی فیصد مل مالکان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم نون سے ہے اور جو پی ٹی آئی والے ہیں وہ بھی ان کے پارٹنر ہیں جیسا کہ ہمایوں اختر کی شوگر ملز ہیں تو ان کے بھائی ہارون اختر نون لیگ میں ہیں۔خسرو بختیار پی ٹی آئی میں ہیں ان کی کچھ ملوں میں پارٹنر چودھری منیر ہیں ان کا تعلق نون لیگ سے ہے۔ چودھری برادران بھی اس کاروبار میں ہے ان کا تعلق ق لیگ سے ہے۔ ذکا اشرف پاکستان پیپلز پارٹی سے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ سارے سیاست دان اس کے ساتھ ہی چلتے ہیں جو ان کے کاروبار کو سپورٹ کرتے ہیں اس لیے حکومت کو بہتر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ گنا چوری بھی خریدا جا رہا ہے اور گنے کے چھوٹے کاشتکاروں جن کی زمینیں تھوڑی ہیں اچھا برتاؤ نہیں کیا جا رہا اس حوالے سے کین کمشنر کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ آج بھی چینی ساٹھ فیصد سے زائد بکس کے بغیر یعنی اندراج کے بغیر بیچا جا رہا ہے۔ وہ جنرل سیلز ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ حکومت عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے بہتر انتظامات کرتے ہوئے شوگر ملز کے جی ایس ٹی کے نظام کو بہتر بنائے اور تمام شوگر ملوں میں تیار ہونے والی چینی کی مجموعی مقدار کو دیکھتے ہوئے فکسڈ جی ایس ٹی کے نظام کی طرف جائے۔ تاکہ اس لوٹ مار سے بچا جائے اور ملک کا ریونیو بہتر ہو سکے۔ حکومت پہلے یہ کام کرے کہ ہر شوگر مل کا ڈیٹا اکٹھا کرے، کہاں کتنی چینی تیار ہوتی ہے، تفصیلات اکٹھی کرے پھر آل پاکستان شوگر ملز ایسوی ایشن کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو بہتر انداز میں حل کرے۔ اس طرح ٹیکس کا نظام بھی بہتر ہو گا اور عوام پر بھی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔ گذشتہ برس چینی ساڑھے اڑتالیس لاکھ میٹرک ٹن پیداوار ہوئی تھی تین لاکھ میٹرک ٹن کیری اوور تھا جبکہ ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن چینی امپورٹ کی گئی۔ لگ بھگ چون لاکھ میٹرک ٹن سالانہ ہماری ضرورت ہے۔ رواں برس چینی کی اٹھاون لاکھ سے باسٹھ لاکھ میٹرک ٹن پیداوار کا امکان ہے۔ یہ پیداوار گذشتہ برس کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس پیداوار کو دیکھتے ہوئے چینی کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے۔ چینی ساٹھ سے پینسٹھ روپے فی کلو ملک بھر میں فروخت ہونی چاہیے۔ حکومت چینی امپورٹ کرے اور مل مالکان کو ذخیرہ نکالنے پر مجبور کرے، امپورٹڈ چینی صرف اور صرف یوٹیلیٹی اسٹورز اور سی ایس ڈی پر فروخت کر کے مارکیٹ کو مستحکم کیا جائے۔ مل مالکان کسی صورت اپنا پیسہ اور ذخیرہ روک نہیں سکتے۔ حکومت بہتر حکمت عملی سے ممکنہ چینی بحران کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن