نمبر ٹین ناظم الدین روڈسے میرا رشتہ کیسے کٹ سکتا ہے ،ایک وقت تھا کہ نمبر ٹین ڈائوننگ سٹریٹ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا،پھر تمام محکوم اقوام آزاد ہوتی چلی گئیں، آزادی کی زنجیریں کٹ گئیںمگر نمبر ٹین ڈائوننگ سٹریٹ سے دنیا کا رشتہ نہیں ٹوٹا،رشتے ٹوٹنا اتنا آسان عمل نہیں،نمبر ٹین ناظم الدین روڈ سے میرا رشتہ کیسے ٹوٹ سکتا ہے،وہاں حاجی نواز کھوکھر کی بیگم صاحبہ موجود ہیں جو میرے لیے مہربان بہن کی طرح ہیںاور مصطفی نواز کھو کھر ایک کہکشاں کی طرح پاکستان کی سیاست میں چمک رہا ہے۔اس کا پہلا سیاسی ظہوربطور سینیٹر ہوا ہے، میںپچھلے برسوں میں جب بھی حاجی نواز صاحب سے مصطفی نواز کے بارے میں پوچھتا وہ کہتے برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے حاجی نواز کھوکھر بھی ایک اثاثہ تھے، مصطفی نواز اسی ورثے سے سرفراز ہوا اور ملک کے انتہائی زیرک سیاستدان اور سابق صدر زرداری کا ترجمان بنا، وہ دلیل سے بات کرتا ہے اور اس کے لہجے سے اپنے عظیم باپ کا تجربہ جھلک رہا ہے۔مصطفی نواز فی الوقت دوہرے صدمے سے دوچار ہے۔ پہلے چچا تاجی کھوکھر جہان فانی سے رخصت ہوئے پھر والد صاحب راہی ملک عدم ہوئے، یوں مصطفی نواز کے دو مضبوط بازو ٹوٹ گئے۔ چچا کی طاقت وحشمت اور باپ کی عقل ودانش او ر حکمت و تدبر سے محرومی کسی قیامت سے کم نہیں۔ تاجی کھو کھر اور نواز کھوکھر کے عروج کے پیچھے ایک جاں گسل جدو جہد ہے ،میں نے ایک ویڈیو کلپ میں سنا کہ حاجی نواز کھوکھر پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں،اور تاجی کھوکھر کے قوت بازو کا لوہا ایک دنیا مانتی ہے۔ یہ دو افراد کی کی کہانی نہیں ایک خاندان کاشاہنامہ ہے جس میں مصطفی نواز ایک نیا رنگ بھر سکتے ہیں۔اور اسے ایک نئے آہنگ کے ساتھ بڑھاوا دے سکتے ہیں۔مصطفی نواز کھوکھر اپنے والد کی سیاست اور حکمت کو مجھ سے زیادہ سمجھتا ہے اور اپنے باپ کے خون کا حصہ ہے،اور اس نے والد کی سانسوں کی مہک کومحسوس کیا ہے۔ میں نے تو حاجی صاحب کی شخصیت کا نظارہ دور ساحل سے بیٹھ کر کیا ہے، میرے نزدیک وہ بادشاہ بھی تھے اور بادشاہ گر بھی،ان کی فہم وفراست کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا،مگر جو طاقتیں ان کی اہلیت اور صلاحیت کو سمجھتی تھیں وہ انہیں کئی مہمات سر کرنے کا فریضہ سونپتی تھیں۔ حاجی نواز کبھی سامنے آکر اور کبھی پس منظر میں رہ کر وہ کارنامے سر انجام دیتے کہ لوگ ششدر رہ جاتے۔قومی زندگی کی انتہائی پیچیدہ گتھیوں کو چٹکی میں حل کردیتے،ریمنڈ ڈیوس کے سانحے نے ریاست پاکستان کو ہلاکر رکھ دیاتھا،اس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل ہوا اور اس پر ہاتھ ڈالنا کسی کے بس میں نہ تھا، قوم کے جذبات بپھرے ہوئے تھے،ریمنڈ ڈیوس کے پیچھے طاقتور امریکی تنظیم بلیک واٹر سر گرم عمل تھی اورا مریکی حکومت ہمارے حواس پر مسلط تھی،بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ا ورا یمل کانسی اور ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی طرح ریمنڈ ڈیوس کو زبردستی اٹھا کر لے گیا،لیکن میرے گھر کے ڈرائنگ روم میں حاجی نواز کھوکھر نے مجھے بتایاکہ میں کروڑوں کی رقم ٰخصوصی طیارے میں لے کر آیا تھا اور خون بہا کے طور پرمقتولین کے ورثا میں تقسیم کی تھی، مجھے یہ سن کر کوئی اچنبھا نہ ہوا کیونکہ حاجی نواز کھوکھر اور ملک ریاض پاکستان کے اہم واقعات کے پیچھے پراسرار طورپر متحرک اور سرگرم عمل رہتے ہیں، مگر میں نے ہنس کر کہا کہ کیا آپ سے رقم لینے کے لیے کسی کو اپنے پیاروں کو مروانا ضرور ی ہے، کیا آپ کسی ضرورت مند کو کروڑوں نہ سہی چند لاکھ بھی نہیں دے سکتے۔ حاجی صاحب نے بڑے کھردرے لہجے سے جواب دیا کہ ہم کسی کے حکم کے بغیر ایک پیسہ تک دینے کے روادار نہیں ہیں۔بس ہمارے لیے کوئی حکم لے آئے تو چاہے کروڑوں روپے لے جائے۔ میں نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کس کا حکم مانتے ہیں لیکن میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی سب کچھ سمجھ گیا۔
میں واپس مصطفی نواز کھوکھر کی طرف پلٹتا ہوں کہ وہ اپنے والد کی زندگی کے ہر نشیب و فراز پر نظر رکھتے ہیں مگر تجزیہ کیا جائے تو اب ان کے سر پر ایک مہربان باپ کا سایہ نہیں رہا اور تاجی کھوکھر کی موت سے یہ خاندان قوت وحشمت اور زور بازو سے محروم ہوگیا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ نوجوان مصطفی نواز کھوکھر اس خلا میں اپنے لیے آگے کیسے راستہ بناتے ہیں۔ ملک ریاض سے ان کی راہ ورسم کیسے ہوگی،اور ان کی چڑیا ان کے سر پر کس طرح سایہ فگن ہوگی، اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہو ںکہ پیپلز پارٹی کے لیے مصطفی نواز کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا، اس نوجوان نے بہت کم عرصے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور سیاسی تدبر اور حکمت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ جدید علوم وفنون سے بہرہ مند ہے، اس کے لیے کسی سازش کی بو سونگھنا اور اسے کچلنامشکل نہیں، وہ اپنے اردگرد فالٹ لائن کوغیر موثر بنانے کا ہنر جانتا ہے۔
میرے دوست اور ساتھی کالم نگار نواز رضا نے نواز کھو کھر کے جنازے میں شرکت کے فوری بعد ایک ویڈیو کلپ میں اپنے غم واندوہ کا اظہار کیا ،انھوں نے شاندار لفظوں میں حاجی صاحب کا تذکر ہ کیا اور فارسی والے محاورے، من ترا حاجی بگوئم تومرا حاجی بگو ،تک محدود نہیں رہے۔ نواز رضا کو لوگ حاجی کہتے ہیں مگر نواز رضا نے حاجی نواز کھو کھر کو الحاج کہا،یہ اپنے بچھڑنے والے دوست اور بھائی کے لیے وسیع الظرفی کا مظاہرہ ہے۔ حاجی نواز رضا اپنے دوست کی زندگی کے لمحے لمحے سے آشنا تھے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازبیاں اور۔ اس کے لئے اگلی قسط کا انتظار فرمایئے ۔٭…٭…٭
نواز کھوکھر، تاجی کھوکھر اور مصطفی کھوکھر (۲)....
Jan 18, 2021