شاعری کے تناظرمیںمعاشرہ

ہر معاشرہ اپنی تہذیب وتمدن کے حوالے سے علم وادب کا گہوارہ ہوتاہے ادیب اور شاعر اس معاشرے پہ گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والے حالات اور بیت جانے والے واقعات کے گرداب میں بھی چکر کاٹتا رہتا ہے، شاعر اور ادیب کا احساس اتنا گہرا، دور اندیشی کا حامل اور حقیقت پر مبنی ہوتاہے کہ زمانہ حیران رہ جاتا ہے۔جس طرح حضرت علامہ اقبال نے فرمایا کہ…
یوں تو سید بھی، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائوتو مسلمان بھی ہو
 اس وقت کے حالات کی مطابقت سے کہاگیا یہ شعر آج کتنے عشروں کے بعد بھی اپنی اہمیت کی کرنوں سے پورے معاشرے کو چکاچوند کررہاہے۔ پھر جب اقبال نے فرمایا کہ
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
شاعر کے اس شعر کے زمانے پہ طائرانہ نظر ڈالیں تو انقلاب کی سب سے بڑی علامت اور وجہ خودی نے کس طرح سرزمین پاکستان کے وجود کو تعمیر کرکے دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا، آج بھی اگر وہی خودی کی کیفیت امت مسلمہ اپنے اندر پیدا کرلے تو ان صیہونی طاقتوں اور استعماری سازشوں کے گلے میں طوق ڈال کر صلیبوں پہ چڑھانا مشکل نہ ہوگا۔ اقبال کا یہ پیغام آج بھی ہماری تہذیب کردار اور حالات کو شیشہ دیوار سے منعکس کر رہا ہے۔ہمارے شاعر وادیب چونکہ صرف ایک عشرے یا وقتی حالات پہ بات نہیں کرتے بلکہ انکی فکر کا زاویہ صدیوں پہ محیط ہوتاہے جس طرح فیض احمد فیض نے کہا کہ…
یہ حسین کھیت، پھٹا پڑتاہے جوبن جن کا
کس لیے فقط ان میں بھوک اْگا کرتی ہے
شاعر کی اس کیفیت کہ میں پورے زمانے کے افلاس زدہ پسماندہ علاقے کے لوگوں کی حالت زار غوطہ زن ہورہی ہے۔ آج بھی کھیتوں میں بھوک اگتی ہے۔ شعور کی منزلیں کہاں تک پہنچ گئیں، علم کا معیار کتنا بلند ہوا اور ترقی کس نہج تک پہنچ گئی،   انسان چاہے چاند پر پہنچ جائے پھر بھی زمین پہ مسائل کے انبار سمیٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ آج بھی امت مسلمہ اور پاکستان کی تہذیبوں میں جہاں بے انتہا امارت ہے وہاں غربت کی کبھی نہ ختم ہونے والی سیاست بھی پروان چڑھی ہے، خلیل جبران کی ایک نظم بھیPity the nationہمیں تہذیب وتمدن اور حالات و واقعات کی قید میں پابجولاں نظرآتی ہے جس کا اردو ترجمہ فیض صاحب نے یوں کیا ہے کہ ’’قابل رحم ہے وہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں مگر دل یقین سے خالی ہے، جو ایسے کپڑے پہنتی ہے، جس کیلئے کپاس ان کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی جس کے نام نہاد سیاستدان لومڑیوں کی طرح مکار اور دھوکے باز ہوں، اور جس کے دانشور محض شعبدہ باز اور مداری ہوں جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو‘‘۔ اسی طرح انتظار حسین مرحوم کی کہانی میں بھی ہم آج خود کو زندہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ آج کی تہذیب کے حوالے سے انسان کو صاحب تہذیب اور توقیر تہذیب کے منبر پربٹھاتے ہیں پرانے وقتوں اور آج کے انسانوں کی تہذیب ، قدروں اور شعور وآگہی کی زندان خانوں میں بھی چراغوں کی روشنی میں ڈھونڈلاتے ہیں ۔ہزاروں سال میں گندھا ہوا انسانی کردار سیاسی تشخص، تہذیبی سفر، تاریخی واقعات ، مذہبی شعور اور دیگر ہیجانات کو علم وشعور کے قرطاس، ادب پہ، افسانہ، کہانی، ناول، ڈرامہ،شاعری، کالم اور مقالوں میں ڈھالنا ولی کی وہ کیفیت ہے جو اللہ رب العزت نے انسانوں کیلئے مروجہ کی ہے جس طرح انتظار حسین نے آخری آدمی میں لکھا ہے کہ ہمارے ناخن نکلنے لگے ہیں، ہمارے جسم پہ بال نکل رہے ہیں ہم اپنی جون تبدیل کرنے جارہے ہیں انسان کبھی بندر کبھی مکھی بنتاہے اور ہمارے اندر کتا ظرف کی صورت لڑتا رہتاہے۔غور کریں تو یہ انسانی معاشرے کی وہ کہانی ہے جس میں ہر انسان کا چہرہ واضح نظرآتاہے ہابیل اور کابیل کے معاملے سے لے کر لمحہ موجود تک انسان اپنے ظرف اور انا کی جنگ جانوروں کی طرح لڑتا آرہاہے الغرض یہ خاصہ ایک قلمکار ہے جوکہ تاریخ کے قبرستانوں میں مْردوں کے ساتھ بھی لیٹ جاتا ہے۔ کوئے دار سے نکل کر سوئے دار تک رسوائیوں کے تھپیڑے سہتا ہے، فٹ پاتھ پہ تار تار عبا پہنے یخ بستہ ہوائوں سے ٹھٹھرتا اور لڑتاہوا جانوروں کے ساتھ سوکھی روٹی بھی بانٹ کر کھاتاہے، زمانے بھرکا درد قلم میں سمو کر جگر سوختہ میں ڈبو کر خوبصورت پیرائے میں بیان کرتاہے، عشق کے سفر پہ نکلتاہے تو وصل یار کی آرزو میں خلیج پاٹ لیتاہے کہیں رقیب کی سرشت میں آتاہے تو معاشرہ الاماں پکار اٹھتاہے۔

ای پیپر دی نیشن