اپوزیشن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن حکومت کا خا تمہ نہیں کر سکے مگر اب حکومت جائے گی اور صرف اپنی پیدا کردہ مہنگائی ، نئے نئے ٹیکسوں، مسلسل لیے گئے قرضوں، آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن اور عوام کی زندگی اذیتوں میں ڈا لنے سے حکومت پر ضرور زوال آئے گا۔ ایک غریب، مجبور، بے بس اور بیروزگار عوام پر مہنگائی مسلط کرنے پر حکومت کا خا تمہ یقینی ہے۔ ان 75 سالوں میں عوام پر کبھی اتنا قہر نہیں ٹو ٹا تھا جتنا ان ساڑھے تین سالوں میں عوام کو مفلوک الحال بنا دیا گیا ہے۔ عوام کو مہنگائی کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہے۔ عوام کی آمدن کے تمام ذرائع محدود کر دئیے گئے ہیں۔ ان ساڑھے تین سالوں میں تنخواہ دار ملازمین افسران اور ریٹائرڈ لوگوں کی آمدن میں اگر سا بقہ حکوتوں کے مطا بق تین مرتبہ اضا فہ بھی کر دیا جاتا تو شا ید لوگ اتنے تہی دست اور تنگ دا منی کا شکار نہ ہوتے لیکن صرف ایکبار تنخواہوں اور پینشن میں برا ئے نام اضافہ کیا گیا۔ دوسرے طرف بجلی ، پٹرول گیس پانی اور تمام اشیائے خورد و نوش میں بے پناہ اضا فہ کر کے لوگوں کی زندگی مسائل اور مصا ئب زدہ کر دی گئی۔ کو رونا کی وجہ سے تمام کاروبارِحیات بند ہو گیا۔ فیکٹریاں اور تمام صنعتیں بجلی گیس پٹرول پانی کی وجہ سے ٹھپ ہو کر رہ گئیں۔ تین سال پہلے کم آمدن کے با وجود لوگ اچھی اور سکو ن کی زندگی گزار رہے تھے لیکن ان تین سالوں میں امیر لوگ بھی حکومت کی نا قص پالیسیوں سے کان پکڑنے لگے۔ سب سے زیادہ متوسط، سفید پو ش اور غریب طبقہ متا ثر ہواہے۔ لوگ تین وقت کی روٹی سے دو وقت پر آگئے ہیں۔ جو لوگ چار روٹیاں کھاتے تھے۔ آج وہ دو روٹیاں کھانے لگے ہیں۔ ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ آج پاکستان میں اتنے ٹیکس لگا دئیے گئے ہیں کہ دنیا کے کسی ملک میں اتنے ٹیکس نہیں لگا ئے گئے ہیں۔ پاکستان میں مہنگا ئی کی شرح آسمانوں کو چُھو رہی ہے۔ اصولاً بجٹ ایکبار بنتا ہے جو سا را سال نافذ رہتا ہے لیکن پاکستان میں منی بجٹ بھی پاس کروا کر عوام کی بُوٹیاں نو چنے کے بعد ہڈیاں بھی چیچوڑنے کا اہتما م کر دیا گیا ہے۔ اگر عوام غور کر تو اُسے پتہ چلے کہ اُس سے حکومت ہر روز اربوں روپے کا ـٹیکس وصول کرتی ہے۔ کوئی چیز ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اُس پر وزیر اعظم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان آج بھی دنیا کے تمام ممالک سے سستاہے۔ وزیراعظم تو بڑی دیدہ دلیری سے یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام ٹیکس ہی نہیں دیتے جبکہ ہر پاکستانی معمولی سے معمولی بلکہ گٹھیا ترین چیزوں پر بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔ بار بار یہ سوال اٹھا یا جاتا ہے کہ پاکستان کئی دہا ئیوںسے امدادیں وصول کر رہا ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہا ئی کے اختتام سے پاکستان کو سب سے زیادہ غیر ملکی امدادیں ملی ہیں جو ڈالروں، پو نڈوں، یو روز اور ین کے علاوہ ریا لوں اور کرونوں میں ہے۔ چین جاپان جرمنی ناروے ترکی قطر سعودی عرب امریکہ بر طا نیہ او ر کئی ممالک مسلسل پاکستان کو فنڈز دیتے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ تین سالوں میں آئی ایم ایف سے 72سالوں کی نسبت کئی گنا زیادہ قرضہ لیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان کا بچہ بچہ سر سے پائوں تک قرضوں کے جال میں پھنس گیا ہے۔ تین سالوں میں حکومت نے اتنا قرضہ لیا ہے کہ مختلف جگہوں سے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی خود مختا ری خطرے میں پڑ چکی ہے جس کی حا لیہ مثال تا زہ ترین منی بجٹ ہے۔ منی بجٹ نے پاکستانیوں کے کانوں سے دھواں نکال دیا ہے۔ منی بجٹ کا نفا ذ خا ص آئی ایم ایف کے احکامات کی تعمیل میں کیا گیا ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے وال ملک بن چکا ہے۔
حکومت سا ڑھے تین سالوں میں ایک کروڑ کیا، ایک ہزار نو کریاں دینے میں بھی ناکام رہی ہے بلکہ ایک بڑی تعداد کو نو کریوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ملک میں کاروبار کے تمام موا قع ختم ہو چکے ہیں۔ جس ملک میں بجلی پٹرول گیس پانی انتہا ئی مہنگا ہو گا۔ وہاں نہ فیکٹریاں چلیں گی اور نہ صنعتیں چلیں گی نہ ہی مختلف ادارے اور دفا تر میں بھرپور کام ہو سکے گا۔ حکومتی سطح پر کام کے سلسلے ویسے جامد و ساکت ہیں۔ یہ حکومت ساڑھے تین سالوں میں صرف مہنگا ئی کا نیٹ ورک چلا رہی ہے یا پھر مو جودہ حکومت کا سا را زور ایپس (Apps) بنانے پر ہے۔ حکومت یا تو پو رٹل بناتی ہے یا اپیس بناتی ہے یا سا بقہ حکومتوں کے کاموں پر اپنے ناموں کی تختیاں لگا تی ہے یا اُن منصوبوں کے افتتاح کرتی ہے جو سا ڑھے تین سالوں میں بھی کاغذوں سے زمینوں اور انسا نوں میں منتقل نہیں ہو ئے۔ حکومت نے آنے کے بعد صرف الزام ترا شیوں کو فوکس کیا ہے یا پھر ایک ایک پاکستانی کے اثا ثے کھنگالے ہیں۔ حکومت ملازمین یا ریٹا ئرڈافراد کو جو پینشن دیتی ہے۔ وہ زیا دہ سے زیا دہ پچاس ہزار سے شروع ہو کر دو لاکھ تک جا تی ہے۔ حیرت ہے کہ حکمرانوں کاآٹھ لاکھ تنخواہ، دس لاکھ فنڈز اور کروڑوں روپے کے دیگر اخرا جات کے با وجود پو ری نہیں پڑتی۔ٹکے کی آمدن رکھنے والے اب غیض و غضب میں ہیں۔ عوام کی فریا د سن لیں اس سے پہلے کہ وہ مشتعل ہو جائیں۔