الیکشن کمیشن نے کراچی ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج جاری کردیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ کراچی کی تمام دو سو پینتیس یونین کونسلز کے نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی ترانوے یوسیز میں کامیابی کے بعد سرفہرست ہے جب کہ جماعت اسلامی چھیاسی یوسیز میں کامیابی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔پاکستان تحریک انصاف کو کراچی ڈویژن میں چالیس یوسیز پر کامیابی ملی ہے۔ مسلم لیگ ن نے سات، جمعیت علمائے اسلام نے تین اور تحریک لبیک نے دو نشستوں پرکامیابی حاصل کی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ ایک یوسی پر اور آزاد امیدوار تین یوسیز پرکامیاب ہوئے ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق شہر کی دو سو چھیالیس میں سے دو سو پینتیس یونین کمیٹیز میں انتخابات ہوئے جب کہ دس نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہوئے، ایک نشست پر پیپلزپارٹی کا چیئرمین پینل بلا مقابلہ جیت چکا ہے۔
یہ انتخابات بالخصوص جماعت اسلامی کے حوالے سے نہایت حوصلہ افزا ہیں۔ جماعت کو قومی دھارے کی سیاست میں ماضی کی طرح مضبوط کردار میں آنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کا مضبوط ہونا خوش آئند ہے وہیں پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ بلدیاتی انتخابات ایک طرح سے عام انتخابات کی تیاری ہی سمجھے جاتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات عوام کا رجحان بتاتے ہیں اور ووٹرز کی رائے پرکھنے کا موقع ملتا ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کسی دھچکے سے کم نہیں ہیں کیونکہ جس اعتبار سے پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے دعوے کیے جاتے رہے ہیں اس اعتبار سے نتائج سامنے نہیں آئے۔ یہ یاد رکھیں کہ ابھی ایم کیو ایم نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے اگر متحدہ قومی موومنٹ انتخابی میدان میں ہوتی تو سیٹوں کی فہرست میں یقینی طور پر تبدیلی ہوتی ان حالات میں پی ٹی آئی کی سیٹیں مزید کم ہو جاتیں یعنی پی ٹی آئی تیسرے نمبر سے بھی نیچے جا سکتی تھی۔ اس لیے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دیکھنے کے بعد پی ٹی آئی کراچی کے عہدے داروں اور مرکزی قیادت کو اپنی طرز سیاست پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کم سیٹیں ملنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے طرز سیاست پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیگر بڑے شہروں پر بھی اپنا اثر چھوڑ سکتے ہیں۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کے لیے مسائل بڑھنے کا امکان ہے اور جماعت اسلامی کو مستقبل میں بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کا اچھے نتائج حاصل کرنا خوش آئند ہے کیونکہ ہمیشہ سے جماعت اسلامی سنجیدہ باشعور، وطن پرست اور قومی مفاد میں کام کرنے والوں کی جماعت رہی ہے اس جماعت کے ووٹرز ہمیشہ سے ملک کی ترقی اور تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ آپ ان کے طرز فکر طرز سیاست سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی اور اس کے ساتھ جڑے افراد کی وطن سے محبت اور اسلام سے وابستگی پر کسی کو شک و شبہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دور میں جماعت اسلامی ملک کی سب سے مضبوط اپوزیشن جماعت سمجھی جاتی تھی اور جماعت اسلامی کے پوزیشن کا مقابلہ کرنا کسی بھی بڑی حکمران جماعت کے لئے آسان نہیں ہوتا تھا۔گذشتہ چند برسوں میں یا دس پندرہ برس کے دوران جماعت اسلامی کی سیاست کمزور ہوئی اور اس کا جماعت اسلامی کو شدید نقصان پہنچا مختلف پالیسیوں کی وجہ سے جماعت اسلامی نوجوان نسل کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب نہ ہوسکی کی اس کے ساتھ ساتھ جماعت کے مختلف نمایاں لوگ دیگر سیاسی جماعتوں کا حصہ بنتے رہے اور یوں قومی سطح پر جماعت اسلامی کی طاقت میں کمی آئی اب ان بلدیاتی انتخابات کے بعد جماعت کے پاس ایک موقع ضرور آیا ہے کہ دوبارہ سے اپنی سیاسی حکمت عملی پر غور کرے اور نوجوانوں کو ساتھ ملا کر ملک کی سیاست میں اپنے کردار کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرے۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں حافظ نعیم الرحمان نے جس انداز میں انتخابی مہم کو لیڈ کیا اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے مخالف سیاسی جماعتوں کی ناکامیوں کو لوگوں کے سامنے رکھا، اپنی کامیابیوں، کراچی کے مسائل کی بہتر نشاندہی اور ان کے حل کے لئے جو باتیں کی عوام نے ان کو ناصرف تسلیم کیا بلکہ ووٹ دے کر آگے بڑھنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس موقع سے فائدہ کیسے آتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے گوکہ انہوں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ایم کیو ایم انتخابات کا حصہ نہیں تھی لیکن پھر بھی کراچی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اگر لوگوں نے جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے پاکستان پیپلزپارٹی کے طرز سیاست اور طرز حکومت پر اس حد تک اعتماد نہیں کرتی جتنا کہ ایک طویل حکمرانی کے بعد ہونا چاہیے۔بہرحال اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک کے سب سے بڑے معاشی مرکز کو بہتر بنائیں اس کے مسائل حل کرنے اور پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرنا ہو گا۔ ایم کیو ایم کا اتحاد اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ ان کا ووٹر تقسیم تھا اور کئی دھڑوں میں تقسیم متحدہ قومی موومنٹ ناصرف اپنے ووٹرز کے لیے پریشانی اور مایوسی کا باعث تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے قائدین بھی بغیر کسی سمت کے کام کر رہے تھے، ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری تھا حالانکہ جن معاملات میں یا جس دور کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں اس دور میں وہ سب سب اکٹھے تھے اس دوران جو کچھ ہوا، جو کچھ کیا گیا ہے ان سب نے مل کر ہی کیا، اب وہ انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے لیکن ان کی طاقت کو اور ووٹ بینک کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اگر متحدہ قومی موومنٹ کے تمام دھڑے مل کر کسی بھی انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو وہ یقینی طور پر حیران کن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور عوام کے بدلتے ہوئے رجحانات کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو سیکھنا چاہیے کہ لوگ زیادہ دیر تک بڑی تعداد میں کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ صرف نعروں وعدوں اور بیانات کی حد تک کھڑے نہیں رہ سکتے اگر کوئی بھی سیاسی جماعت لوگوں کو اپنے ساتھ اکٹھے رکھنا اور جوڑنا چاہتی ہے تو اس کے لیے عوامی مسائل کا حل ہونا لوگوں کے طرز زندگی میں بدلاؤ اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کام کرنا سب سے اہم ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اگر اپنے ووٹرز کے بنیادی مسائل کو کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو جذباتی وابستگی ایک حد تک ہی اسے کسی کے ساتھ جوڑے رکھ سکتی ہے ایک وقت آتا ہے کہ انسان اپنے مسائل کے حل کے لئے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے اور یہ انتخابی نتائج اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جذباتی وابستگی اپنی جگہ لیکن بنیادی مسائل کا حل نہ ہونا سب سے زیادہ اہم ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ پرویز الٰہی صاحب تحریک انصاف میں ضم ہونا چاہتے ہیں اگر وہ یہ سوچ رہے ہیں تو ماضی کے ایسے واقعات کو ضرور ذہن میں رکھیں۔ ایسے انضمام کے بعد اپنی سیاسی حیثیت اور شناخت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر آپ اپنی سیاسی حیثیت ایک مخصوص سیاسی فائدے کے لئے ختم کرتے ہیں تو یہ کوئی بہت زیادہ عقلمندی و دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ ان کا اپنا فیصلہ ہے لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ صرف ایک سیٹ بھی رکھتے ہیں لیکن آپ کا اپنا انتخابی نشان ہے اور ایک الگ سیاسی شناخت موجود ہے تو وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں ضم ہونے سے کہیں بہتر ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر وہ صدر کے عہدے کی بات کر رہے ہیں تو پہلے بھی پی ٹی آئی میں ان کی مخالفت موجود ہے لوگ انہیں تسلیم نہیں کریں گے۔ کسی بھی قسم کے حالات میں یہ کوئی اتنی اچھی سیاسی سوچ نہیں ہے۔ انہیں سب سے زیادہ سوٹ چودھری شجاعت ہی کرتے ہیں لیکن اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ واپس چودھری صاحب کے پاس جائیں گے۔؟؟؟؟