قصہ 85 فیصد مقبولیت کا 


ہفتہ بھر پہلے لکھا کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دو پارٹیوں کا مقابلہ ہے یعنی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا۔ اگلے دن کسی نامعلوم صاحب کی کال آئی۔ لہجہ مہذب تھا لیکن طنز اور تمسخر کا تاثر ضرور مل رہا تھا۔ خلاصہ ان کے فون کا یہ تھا کہ کراچی میں پہلے نمبر پر پی ٹی آئی آئے گی، میئر بھی اسی کا ہو گا۔ دوسرے نمبر پر متحدہ ہو گی اگر اس نے بائیکاٹ نہ کیا۔ آپ کی دونوں جماعتیں تیسرے اور چوتھے نمبر پر آئیں گی۔ موصوف نے اپنا نام بتانے کے بجائے صرف یہ کہا کہ آپ کا کالم پڑھنے والا ایک عام شہری ہوں۔ 
خدا جانے کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ پی ٹی آئی کے تو بہرطور نہیں تھے اس لئے کہ ہوتے تو پچاس سے اوپر گالیاں دیتے، پھر بات کرتے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اگر کوئی صاحب پی ٹی آئی پر تنقید کے خلاف فون کریں اور صرف 49 گالیاں دیں تو بھی ان کا پی ٹی آئی کا کارکن ہونا مشکوک ہے۔ 50 گالیاں تو ’’بنیادی نصاب‘‘ ہے، جو اس نصاب میں اضافہ کرے تو فبہاء کمی کرے تو پی ٹی آئی کا نہیں ہو گا، ہاں ابھی ذہن بنا رہا ہو گا۔ 
خبر، انتخابی نتیجہ اسی طرح سے آیا کہ اوّل پیپلز پارٹی، دوئم جماعت اسلامی۔ اگرچہ جماعت کا اصرار ہے کہ نتائج بدلے گئے ورنہ وہ پہلے نمبر پر تھی، سویوسیز جیت چکی تھی۔ جماعت ان 16,15 سیٹوں پر دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر رہی ہے جو اس کے بقول اس نے جیتی تھیں لیکن پی ٹی آئی بھی جیت سکتی تھی اگر 235 بلدیاتی سیٹوں پر ہر ایک سے عمران خان خود الیکشن لڑتے۔ لیکن انہوں نے یہ آسان فیصلہ نہیں کیا اور یوں پی ٹی آئی بھی اڑ گئی اور اس کی بھد بھی۔ 
_________
متحدہ نے آخری وقت پر بائیکاٹ کر دیا ، نہ کرتی تو کچھ نہ کچھ سیٹوں پر تو جیت ہی جاتی اور کیا پتہ کہ دوسری نہ سہی، تیسری پوزیشن تو حاصل کر ہی لیتی۔ متحدہ کا بائیکاٹ شروع میں تو نفسیاتی تھا، پھر مجبوری بن گیا۔ نفسیاتی یوں کہ ’’متحدہ‘‘ ہونے کے باوجود اسے پتہ تھا کہ وہ پہلے نمبر پر نہیں آ سکتی۔ کراچی میں اس کا میئر ہو گا نہ حیدر آباد میں۔ یہ صورت حال ایسی تھی کہ اس کا دل مانتا ہی نہیں تھا۔ حلقہ بندیوں کے نام پر یہ تجویز آئی کہ بائیکاٹ کر دیا جائے لیکن مسلسل اجلاس ہوتے رہے، فیصلہ نہ ہو سکا۔ پھر ’’تائید غیبی‘‘ بلکہ ’’تائید لندنی‘‘ یوں آئی کہ لندن والے بھائی صاحب نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ یعنی جتنے ووٹ ملنے تھے، اس سے بھی کم ملتے اور یوں تھوڑی بہت عزت سادات نے بھی داغ مفارقت دے جانا تھا۔ چنانچہ جب ’’بائیکاٹ‘‘ مجبوری بن گیا تو فیصلہ بھی ترنت ہو گیا۔ 
اہل ریاست کے لیے بہرحال لمحہ فکریہ ہے کہ کراچی کے عوام کی اکثریت ہر الیکشن سے لاتعلق کیوں ہونے لگی ہے۔ چلئے ، اکثریت نہ سہی، خاص بڑی تعداد ہی سہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لندن والے بھائی صاحب کی مرلی اب بھی بجتی ہے، ہائیڈ ہائیبر والی کشش کم سہی، اب بھی باقی ہے۔ 
_______
ٹی وی سکرینوں پر براجمان پی ٹی آئی کے مستقل مندوب جنہیں ازراہ تفنّن اینکر پرسن بھی کہا جاتا ہے، پی ٹی آئی کی لینڈ سلائیڈنگ وکٹری بلکہ اس کے کلین سویپ کرنے کی خبر سنا رہے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب گنتی ابھی شروع ہوئی تھی۔ ایک ریٹائرڈ محترم کا ٹویٹ بھی زیر بحث تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی میں یکطرفہ مقابلہ ہو رہا ہے یعنی پی ٹی آئی کے مدمخالف کسی امیدوار کو ووٹ سرے سے مل ہی نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کے دوسرے تجزیہ نگار اور سوشل میڈیا والے بتا رہے تھے کہ کراچی کے 85 فیصد ووٹ پی ٹی آئی کو پڑیں گے (باقی 15 فیصد کا بھی البتہ کچھ بھروسہ نہ تھا)۔ نتائج آنے لگے اور رخ متعین ہوا تو پینترا بدلتے بدلتے کافی دقت پیش آئی۔ خود تو کچھ نہ کہہ سکے، پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے بیانات چلانے لگے کہ واردات ہو گئی! اسی دوران کسی چنبل پر مشہور کلاکار عمران اسمعٰیل تشریف لائے اور یہ خوش کن اطلاع دی کہ نئے میئر کے نام کا اعلان عمران خان کریں گے۔ (کلاکار اس لئے کہ 2018ء کا مقبول ترین نغمہ تبدیلی والا انہی نے گایا تھا)۔ 
_________
اسی دوران سوشل میڈیا پر خود اپنے بارے میں بحث چلی کہ کیا سوشل میڈیا اتنا موثر ہے کہ کسی کو الیکشن جتوا سکے؟۔ کیونکہ سوشل میڈیا کا دو تہائی اکثریت ولا حصہ دو ہفتوں سے یہ مہم چلا رہا تھا کہ کراچی میں پی ٹی آئی کو 85 فیصد ووٹ پڑیں گے، اتنے نہ پڑے تو بھی 70.65 فیصد تو کہیں نہیں گئے۔ 
عرض ہے کہ سوشل میڈیا اتنا ’’فیصلہ کن‘‘ ہوتا تو 2018ء کے انتخابات میں آرٹی سسٹم کو زمیں بوس کرنے کی زحمت ہی کیوں کرنا پڑتی؟۔ سوشل میڈیا نے تو -10 اپریل 2022ء کی رات، جب خان صاحب نے احتجاج کی کال دی تھی، دس کروڑ افراد سڑکوں پر دکھا دئیے تھے اور اس عظیم واقعے سے خود سڑکیں بے خبر تھیں۔ 
پیپلز پارٹی سوشل میڈیا کے جھمیلے میں کبھی پڑی ہی نہیں۔ پھر بھی بلدیاتی الیکشن نے اس نے اپنے ہی ماضی کے ریکارڈ (سندھ بھر کے حوالے سے) توڑ ڈالے۔ 
جماعت اسلامی کا سوشل میڈیا ہے تو سہی لیکن نہایت محدود، زیادہ  تر پارٹی اطلاعات اور خبریں دینے تک رہتا ہے۔ پھر بھی جماعت نے جھنڈا گاڑ دیا، لگتا ہے، سوشل میڈیا پر جنگ لڑنے کی پالیسی میں اب کچھ اعتدال آئے گا۔ 
________
جماعت اسلامی کیلئے کراچی کے نتائج کی اصل اہمیت یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ سنٹرل جو دراصل ’’متحدہ‘‘ سے پہلے کے زمانے میں جماعت کی قوت اور شوکت کا اصل مرکز تھا، پھر سے اس کے پاس واپس آ گیا ہے۔ دوسرے اضلاع میں ’’ان روڈ‘‘ جو اس نے بنائے ہیں، انہیں ’’بونس‘‘ سمجھئے ۔
_________
ایک معاصر میں ’’مسلم لیگ‘‘ کا زوال کے عنوان سے مضمون چھپا ہے۔ کوئی خبریت اس عنوان میں نہیں ہے۔ باغ کو بھی پتہ ہے اور گل کو بھی کہ مسلم لیگ ڈھلوان کے سفر پر ہے، باہمی انتشار اور دھڑے بندی چل رہی ہے البتہ اتنی خبریت ضرور ہے کہ یہ خبر اب اخبار میں بھی چھپ گئی، برنگ مضمون ہی سہی! 
___________

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...