کراچی(اسٹاف رپورٹر) پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے جنرل سیکریٹری اقبال ہاشمی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے الیکشن نہیں جیتا بلکہ کراچی پر قبضہ کیا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز سمجھنے کی کوشش کریں کہ پی پی پی کا مئیر کسی سے بھی ہضم نہیں ہوگا۔ کراچی کو ایک بار پھر خون میں نہلانے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے مینجڈ الیکشن کروائے ہیں۔ یہ نتیجہ کسی کو بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ریکوڈیک پراجیکٹ کے بدلے میں پیپلز پارٹی کو کراچی اور پھر پورے پاکستان میں مسلط کیا جا رہا ہے ۔ ریکوڈیک پراجیکٹ پیپلز پارٹی نے وفاق کے حوالے کرکے سندھیوں اور بلوچوں سے غداری کی ہے۔ بلاول زرداری کو وزیراعظم بنانا پاکستان کے ساتھ غداری ہوگی۔ کراچی نے بھٹو کو بھی کبھی ووٹ نہیں دیا،اب یہ کون مانے گا کہ کراچی نے زرداری کو ووٹ دیا
ہے۔ اگر اسی طرح جعلی لیڈر بنانے ہیں تو الیکشن پر پیسہ ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟تین کروڑ کی آبادی والے شہر پر سعید غنی کو مسلط کرنا آمریت ہے۔ فئیر الیکشن میں سعید غنی کو کراچی میں تین سو لوگ بھی ووٹ نہیں دیں گے۔ ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کرکے اہل کراچی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔کراچی کے مینڈیٹ کے ساتھ ہونے والی کھلواڑ کی ذمہ دار ایم کیو ایم ہے۔کراچی سے غداری کرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی ماضی کی داستان بن گئی ہے، اب دوبارہ نہیں اٹھ سکتی۔ پاسبان ذمہ داران کی میٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی پی کے جنرل سیکریٹری اقبال ہاشمی نے مزید کہا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے ٹرن آؤٹ اور نتائج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کے زیر اثر وڈیرہ شاہی عوام کے سامنے عوام کے مینڈیٹ کی حیثیت کاغذ کے پرزے سے زیادہ نہیں ۔ اپنی اپنی کامیابیوں کے دعوؤں پر مبنی سوشل میڈیا پر اڑائی گئی گرد کے بیٹھتے ہی پیپلز پارٹی کی سائنسی ہیراپھری واضح ہو گئی ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ناقص حکمت عملی نے پیپلز پارٹی کو کھلا راستہ دیا اور ایک بار پھر صوبے اور ملک کے سب بڑے شہر کے باسیوں کے مستقبل کو مزید تاریک بنا دیا ہے۔ انتخابی نظام کی اصلاح اور پولنگ عملہ کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرائے بغیر تبدیلی نہیں آسکتی۔ پاسبان مفاد پرست اور سیاست پر ناجائز قابضین کا مقابلہ کرنے کے لئے عام لوگوں کو منظم کررہی ہے ۔ کراچی میں پندرہ فیصد ٹرن آؤٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام نے تمام سیاسی جماعتوں کو رد کردیاہے۔ چند فیصد مینڈیٹ والی لوکل گورنمنٹ کی اخلاقی حیثیت کیا ہوگی؟ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نتائج تسلیم کئے جانے کے لئے پچاس فیصد سے زیادہ ٹرن آؤٹ طے کیا جانا چاہیے۔ الیکشن نتائج میں رکاوٹوں اور ردوبدل سے تصادم کی راہ ہموار ہوگی جو تباہ حال کراچی کے لئے مزید مسائل پیدا کرنے کا باعث ہوگا۔ کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔