نوجوان نسل کے باشعور اور پڑھے لکھے نوجوان پاکستان و ہندوستان کے تعلقات کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ برصغیر کئی سو سال ایک ملک رہا ہے۔ ہندو مسلم کم از کم ایک ہزار سال اکٹھے رہے ہیں۔ کئی مسلمان بادشاہوں اور اُمراءنے ہندو گھرانوں میں شادیاں کیں۔ ایک جگہ رہتے ہوئے یقیناً ایک دوسرے کی خوشی ، غمی، دُکھ سکھ میں شریک ہوتے رہے۔ ایک دوسرے کے تہواروں میں بن سنور کر شرکت کرتے رہے ایک دوسرے کی مذہبی رسومات کا بھی احترام کرتے تھے۔ پھر آخر وہ کونسی وجوہات تھیں کہ ایک ہزار سال اکٹھا رہنے کے بعد ہم علیحدہ ہو گئے اور صرف علیحدہ ہی نہیں ہوئے بلکہ ایک دوسرے کے ویری ہو گئے۔ ہزار سال کی دوستی چند دنوں میں اتنی شدید نفرت میں بدل گئی کہ 1947ءمیں مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے دس لاکھ آدمیوں کو بے رحمی اور بیدردی سے قتل کر دیا۔ نفرت کی آگ سے نہ تو معصوم بچے بچ سکے نہ کمزور و بے سہارا خواتین اور نہ کمزور، بیمار اور لاغر عمر رسیدہ اشخاص ۔ کیا انسانی رشتے اتنے کمزور و بے مایہ ہیں؟ کیا نفرت کی آگ انسانی اقدار سے بھی زیادہ طاقتور ہے؟ ہماری نئی نسل ماشاءاللہ بہت ذہین سمجھدار، باعلم اور باشعور ہے۔ ان دلائل میں کافی وزن ہے جنہیں آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ ہم چونکہ 1947ءسے علیحدہ رہ رہے ہیں لہٰذا ہماری نئی نسل ہندوراج اور ہندو سامراج کے مزاج سے ناواقف ہے۔ اس لیے ان میں سے کچھ لوگ انسان دوستی کے نام پر پاک و ہند کی تقسیم کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہندو سامراج کی میٹھی باتوں کی تہ تک نہیں پہنچ پاتے لہٰذا ان سوالات کا جواب دینا ضروری ہے اور اس کے لیے دو سچے واقعات پیش خدمت ہیں۔ نتیجہ خود اخذ کر سکتے ہیں۔
یہ 1946ءکا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جناب قائد اعظم مدراس یونیورسٹی میں مسلمان طلبہ سے خطاب کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ خطاب سے پہلے ہندو طلبہ کا ایک وفد ان سے ملنے کے لیے آیا۔ اس وفد کے لیڈر نے قائد اعظم سے یہی سوال کیا۔ جذباتی انداز میں ایک لمبی تشریح کے بعد سخت الفاظ میں سوال کیا کہ ”آپ آخر بھارت ماتا کے ٹکڑے کرنے پر کیوں بضد ہیں؟“ قائد اعظم نے بڑے تحمل سے یہ ساری باتیں سنیں۔ جب طالب علم لیڈر جواب کے لیے خاموش ہوا تو قائد اعظم نے بجائے لمبا جواب دینے کے اپنے سامنے رکھا ہوا پانی کا گلاس اٹھایا دو تین گھونٹ پانی پیا اور پھر بقیہ گلاس اس طالب علم کی طرف بڑھا کر کہا لو اسے پی لو۔ لڑکا حقارت سے پیچھے ہٹ گیا کیونکہ ہندو مسلمانوں کو ناپاک سمجھتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی کوئی چیز کھانا حرام سمجھتے ہیں لہٰذا طالب علم نے نفرت سے جواب دیا کہ یہ ناپاک پانی میں کیوں پیوں؟ قائد اعظم نے پھر پوچھا آخر یہ ناپاک کیسے ہو گیا ہے؟ طالب علم نے جواب دیا آپ نے اس گلاس میں سے پانی پیا ہے اور مسلمان کا جھوٹاپانی میرا مقدس مذہب پینے کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے وہی گلاس ایک ساتھ کھڑے ہوئے مسلمان طالب علم کی طرف بڑھا کر اُسے پینے کا حکم دیا جو وہ غٹاغٹ پی گیا۔ اب قائد اعظم نے ہندو وفد اور ہندو طالب علم کی طرف اشارہ کر کے فرمایا میرے عزیز یہی وہ وجہ ہے کہ ہم مسلمان ایک علیحدہ وطن چاہتے ہیں۔ یہ عملی مثال بہت گہرے معانی رکھتی تھی۔ اس کے بعد ہندو وفد بغیر کسی مزید بحث کے واپس چلا گیا۔ اب جبکہ ہندوستان اور پاکستان تعلقات کے نئے دوراہے پر کھڑے ہیں اور خدا کرے کہ نفرت کی آگ بجھ جائے لیکن اُمید کم ہے کیونکہ ہندومت بنیادی طور پر بنیاد پرست مذہب ہے جو دنیا کی بقیہ اقوام کو تو شاید برداشت کر لے لیکن مسلمانوں کو قطعاً برداشت نہیں کرتا۔ حسب ذیل دو مثالیں میرے نقطہ نظر کی وضاحت کریں گی۔
1820ءمیں جب گلاب سنگھ ڈوگرہ جموں کا جاگیر دار بنا تو اس نے بہت جلد اردگرد کی چھوٹی چھوٹی مسلمان جاگیروں پر بزور شمشیر قبضہ کر لیا اور 1840ءتک اس کی فتوحات گلگت بلتستان اور تبت تک وسیع ہو چکی تھیں۔ بدقسمتی سے وہ مسلمانوں کے خلاف سخت متعصب تھا اور مسلمانوں کو ختم کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ ایک وقت اس نے متھرا میں ہندومت کے بڑے پروہت کو کشمیر آنے کی دعوت دی اور جب وہ آیا تو اُس سے مسلمانوں کو زبردستی ہندومت میں تبدیل کرنے کا فتویٰ مانگا جس سے اُس نے انکار کر دیا ورنہ آج کے پورے کشمیر میں مسلمان خال خال ہوتے۔ ہندو مذہب اور تعصب کی اس سے زیادہ کیا مثال ہو سکتی ہے ۔ دوسرے واقعہ کا تعلق بھی راجہ گلاب سنگھ سے ہی ہے۔ ایک دفعہ راجہ گلاب سنگھ مختلف علاقوں کے دورے پر نکلا۔ ایک جگہ اس نے دیکھا کہ کچھ قیدی ایک چھوٹی سی ندی پر پل بنا رہے تھے۔ اُن قیدیوں میں ایک نوجوان شخص بڑی محنت اور تندہی سے کام کر رہا تھا۔ گلاب سنگھ اُس کے کام سے بڑا خوش ہوا۔ اسے بلا کر شاباش دی اور پوچھا کہ تم کیا انعام چاہتے ہو؟ قیدی نے جواب دیا کہ جناب مجھے آزاد کر دیں۔ پوچھا تم کس جرم میں قید ہو؟ قیدی نے اُمید سے جواب دیا۔ مجھ سے ایک چھوٹی لڑکی کا قتل سرزد ہوا تھا۔ مزید پوچھا تم ہندو ہو یا مسلمان؟ جواب ملا حضور مسلمان ہوں۔ قتل ہونے والی لڑکی ہندو تھی یا مسلمان؟ حضور شاید وہ ہندو تھی۔ گلاب سنگھ گھوڑے سے اُترا۔ اپنے ساتھ کھڑے مصاحبین کو نزدیک بلا کر انگلی سے قیدی کے جسم پر اوپر سے نیچے اور پھر دائیں سے بائیں ایک کراس کا اشارہ کر کے حکم دیا کہ آرہ منگوا کر اس طرح سے ان کے جسم کے چار ٹکڑے کئے جائیں۔ ایک ٹکڑا شمال کی طرف روانہ کیا جائے ایک جنوب کی طرف۔ ایک مشرق کی طرف اور ایک مغرب کی طرف تاکہ میری رعایا کو پتہ چل جائے کہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں کسی ہندو لڑکی کا قتل اس طرح معاف نہیں کیا کرتا۔ معزز قارئین یہ ہے مسلمانوں کے خلاف ہندو رویہ اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ آیا مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن ضروری تھا یا نہیں؟ اگر مزید کوئی شک ہو تو ہندوستان اور کشمیر میں مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھ لیں۔