دور حاضر میںدنیا کے بیشتر ممالک انتہائی مقروض ہیںجوکہ د ورِ رفتہ میں کبھی نہ تھے ، ملکوں کے قرضوں اور امد ادکا بھنور گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے معاشی صورتحال میں جلد بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی ، یہ صورتحال معاشی ماہرین کے لئے ایک بڑا چیلنج ہونے کے علاوہ منصوبہ بندی کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے ، ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت سیاسی انتشار پیدا کر کے ملکی معیشت کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کر دیا گیا ہے ۔
سرِ دست دنیا کی 122 ریاستیں قرضوں اور امداد کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہیں ، پاکستان کے علاوہ افریقی ممالک کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے ، جوبلی جرمن نامی ادارے نے عالمی سطح پر قرضوں کی در پیش صورتحال سے متعلق مختلف ممالک کی سنگین معاشی ابتری اور قرضوں سے متعلق ایک ” قرض رپورٹ “ جاری کرتے ہوئے دنیا کے 154 ممالک کو درپیش مالیاتی مسائل کا جائزہ لیا جن میں سے 122 ریاستیں انتہائی خطرناک معاشی مسائل کی وجہ سے مقروض ہیں ، رپورٹ کے مطابق دنیا کے یہ 122 انتہائی مقروض ممالک کوجن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کے زیادہ تر مسائل کی وجہ عالمی بینک ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ، آئی ایم ایف اور یورپی ترقیاتی فنڈ جیسے اداروں کے دیئے ہوئے وہ قرضے ہیں ، جو آج بھی روایتی طریقہ کار اور شرائط کے تحت دیئے جاتے ہیں ،افریقہ کے علاوہ ایشیاءمیں اور جنوبی ایشیا ء میں بھوٹان اور پاکستان جیسے ممالک کو بھی اس وقت ریاستی قرضوں کی انتہائی سنگین صورتحال کا سامنا ہے ۔
پاکستان دنیا کے سب سے بڑے مقروض ملکوں کی فہرست میں ہے، (ڈی ایس ایس آئی) ڈیبٹ سروس معطلی اقدام کے تحت ایسے ترقی پذیر ممالک جن کی معاشی حالت انتہائی خراب ہے انہیں قرضوں کی معطلی کا سامنا ہے ، کیونکہ رواں سال کے آغاز میں دنیا کے 10 ترقی پذیر ممالک جو کسی ملک کو قرض دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اب ایسے قرض دینے والے ممالک کی تعداد بڑھ کر19 ہو گئی ہے ، ورلڈ بینک کی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے بیرونی ممالک یا اداروں سے سب سے زیادہ قرض لیا ہے، یہ دس ممالک دنیابھر سے 59فیصد قرضے لے چکے ہیں بیشتر ادارے اب ان ممالک کو قرض نہیں دے رہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق بڑھتے ہوئے عالمی بحرانوں نے 54 ملکوں کو ایسی صورتحال سے دو چار کر دیا ہے کہ انہیں قرضوں میں آسانی مہیا کرنے کی اشد ضرورت ہے ، ان ممالک میں سری لنکا، پاکستان ، تیونس، چاڈ اورزیمبیا ہیں ،ان ممالک کو انتہائی فوری نوعیت کے خطرے کا سامنا ہے ، کیونکہ یہ ممالک اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے بُری طرح دبے ہوئے ہیں اور ادائیگیوں کے سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں ، جس کے باعث ان ممالک کے غیر فعال ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں ۔
ملک معاشی ابتری کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے لیکن سیاسی رویے ملک کو غیر مستحکم کر رہے ہیں سیاست میں نہ ہوش رہا نہ ہی روادری ، عدم برداشت سے سیاست انتہا پسندی کی طرف مائل ہو گئی ہے،موجودہ معاشی ابتری سال دو سال کی روادار نہیں یہ جانتے ہوئے بھی موجودہ حکومت کو موردِ الزام ٹھرانا اور گدا گری کے طعنے دینا عقل و شعور کے منافی عمل ہے ، ملک سے محبت اور عوام کی فلاح کے لئے عدم برداشت، عقل و خرد ، دور اندیشی ، ہوش مندی اور رواداری سیاسی قیادت کا معیار ہوتا ہے ،آنے والی نسلیں پڑھیں گی ،اور دنیا کے مورخین یہ ضرور لکھیں گے کہ ملک پاکستان جب انتہائی معاشی مشکلات کا شکار تھا ملکی معیشت جس سیاسی قیادت کی حکمرانی میں تباہ حال ہوئی تھی اسی قیادت نے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلائی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرو اکر ملکی معیشت کو مزید تباہی کی طرف دھکیلا جب کہ ملک کی دوسری سیاسی پارٹیاں اور ادارے ملک کو مستحکم کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف تھے۔
موجودہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کا جینوا ڈونر کانفرنس کا نعقاد اور اس میں سیلاب زدگان کے لئے امداد حاصل کرناایک انوکھا اور قابل ستائش عمل ہے جس میں پاکستان کے لئے توقعات سے زیادہ امداد کے وعدوں پر عالمی سانحات پر ڈونرز کانفرنس منعقد کرنے والی اقوام متحدہ بھی حیرت زدہ ہو گئی۔دوسری طرف ملک میں ڈالر کی قلت سے دالوں کے چھ ہزار کنٹینرز بندر گاہوں پر کھڑے ہیں۔،اگر ان کنٹینرز کو ریلیز نہ کیا گیا تو ماہ رمضان المبارک میں دالوں کی رسد و قیمتوں کا نیا بحران پیدا ہو جائے گا، طویل مدت تک کنٹینر ز کے رکنے سے دالیں خراب ہونے کا اندیشہ ہے ۔ڈالرز نہ ملنے سے گھی و تیل کے جہاز بھی پورٹس پر پھنس گئے ہیں۔پورٹس پر پھنسا مال کلیئر نہ ہوا تو سندھ میں دالوں، گھی اور تیل کا بحران پیدا ہوگا جبکہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی ہو جائے گا،ملک کی سلامتی اور معاشی استحکام سیاسی افہام و تفہیم کا متقاضی ہے ، ضد اور اناءکسی بڑے سانحہ کو جنم دے سکتی ہے ۔
قرضوں کا بھنوراور سیاسی انتشار
Jan 18, 2023