وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی حکومت کے آئینی مدت پوری کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے اور ہم پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے نکال کر اپنے پاﺅں پر کھڑا کرینگے۔ گزشتہ روز العربیہ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت تمام دوست ممالک نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ ہم اس تعاون کو سرمایہ کاری اور تجارت کے شعبوں میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ ویژن نہیں کہ ہر وقت دوسرے ممالک سے ہی مدد مانگی جائے۔ پاکستانی قوم ایک دن ضرور اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے‘ گو کہ ہم اپنی پسند سے ہمسائے نہیں بنے‘ تاہم اس کا ہم پر ہی انحصار ہے کہ ہمیں امن و خوشحالی سے رہنا چاہیے۔ پاکستان نے ماضی سے سبق سیکھا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں جن کے نتائج دونوں ممالک میں مزید غربت و بے روزگاری اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں ابتری کی صورت ہی سامنے آئے۔ میرا بھارت کی قیادت اور وزیراعظم مودی کو یہ پیغام ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور تمام حل طلب مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ بات چیت کریں۔
شہبازشریف نے باور کرایا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ یہ بند ہونی چاہئیں اور دنیا کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ بھارت بات چیت پر تیار ہے۔ ہم مکمل طور پر بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ملنے والے حقوق یکطرفہ طور پر پانچ اگست 2019ءکو ختم کر دیئے گئے۔ میرا بھارتی قیادت کو یہ پیغام ہے کہ تنازعات ختم کرکے ہم اپنے وسائل کو ہتھیاروں کی دوڑ کی بجائے غربت‘ بے روزگاری کے خاتمہ اور صحت و تعلیم کی مثالی سہولتوں کیلئے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں۔ میں نے شیخ محمد بن زائد سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان بھارت مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کیلئے کلیدی کردار ادا کریں۔ ہم خلوص دل کے ساتھ بھارت سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی بقاءاور بقائے باہمی کا دارومدار امن پر ہے۔ دنیا کو ہتھیاروں کی دوڑ نے باہر نکلنا چاہیے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت نے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی روشنی میں پاکستان کی تشکیل خوش دلی اور خلوص نیت سے قبول کی ہوتی اور مسلم اکثریتی آبادی کے تناظر میں خودمختار ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے راستے میں کوئی رکاوٹیں نہ کھڑی کی ہوتیں تو اس خطے کے ان دونوں پڑوسی ممالک کے مابین کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہوتا اور وہ پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کے تحت ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات اور تعاون کو فروغ دیکر اپنی اپنی ریاستوں کو ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کر چکے ہوتے۔ مگر ہندو لیڈران کا تو ایجنڈا ہی کچھ اور تھا۔ انہوں نے پاکستان کا قیام بادل نخواستہ قبول کیا مگر اسے اپنے مہابھارت کے ایجنڈے کے منافی سمجھتے ہوئے شروع دن سے اسکی سلامتی کے درپے ہو گئے۔ اسی تناظر میں ہندو لیڈر شپ نے کٹا پھٹا اور کمزور معیشت والا پاکستان قائداعظم کے حوالے کرنے کی سازش کی اور اسکے بعد بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی کی نیت سے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں کیونکہ ہندو بنیاءکی یہ سوچ تھی کہ وہ کشمیر سے پاکستان کی جانب جانیوالے دریاﺅں کا پانی روک کر اسکی زرخیر دھرتی کو بے آب و گیاہ ریگستان میں تبدیل کرکے بھوکا پیاسا مار دیگا اور اس طرح اپنے اکھنڈ بھارت والے ایجنڈے کو قیام پاکستان کی شکل میں نقصان پہنچانے کا بدلہ لے لے گا۔
بھارتی لیڈر شپ نے اپنے اس ایجنڈے کے عین مطابق قیام پاکستان کے فوری بعد ریاست جموں و کشمیر پر شب خون مارا اور اپنی افواج کے ذریعے اس پر اپنا تسلط جمالیا تاہم پاکستان کے ساتھ الحاق کرنیوالے غیور قبائلیوں نے بھارتی فوج کی سخت مزاحمت کرکے اس سے کشمیر کا بیشتر علاقہ واگزار کرالیا جو آج آزاد و جموں و کشمیر کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ ملحق ہے اور باقیماندہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر جدوجہد کر رہا ہے اور مقبوضہ وادی کے باشندوں کی آزادی کی تحریک کا ساتھ نبھا رہا ہے۔ اگر اس وقت پاکستانی فوج کے انگریز سربراہ ڈگلس گریسی قائداعظم کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے پاکستانی فوج کو کشمیر میں داخل کر دیتے تو اسی وقت کشمیریوں کو بھارتی تسلط سے آزادی مل جاتی اور وہ اپنے عزم و منشور کے مطابق پاکستان کے ساتھ الحاق کرکے آزاد زندگی بسر کر رہے ہوتے مگر ہندو اور انگریز کی باہمی سازش نے ایسا نہ ہونے دیا چنانچہ گزشتہ 75 سال سے مقبوضہ وادی کے عوام بھارتی تسلط سے آزادی کی جہدِمسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب تک اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں اور ہزاروں عفت مآب خواتین کی عصمتوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کے تحت 1948ءمیں ہی کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور بھارت کو یواین کمیشن کی نگرانی میں مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی مگر بھارت نے نہ صرف یواین قراردادوں سے انحراف کیا بلکہ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی بھی اختیار کرلی۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی داستان بلاشبہ انتہائی تلخ اور المناک ہے اور اقوام عالم کا ضمیر جھنجوڑنے کی متقاضی ہے۔
پاکستان نے تو ہمہ وقت کشمیری عوام کا دامے‘ درمے‘ سخنے ساتھ نبھایا ہے اور ہر علاقائی اور عالمی فورم پر انکے حق خودارادیت کیلئے آواز اٹھائی ہے جس کا خمیازہ اسے بھارت کی جانب سے مسلط کی گئی تین جنگوں اور سانحہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بھگتنا پڑا جبکہ بھارت باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے جس کی گھناﺅنی سازشیں دنیا بھر میں بے نقاب بھی ہو چکی ہیں۔ بھارت کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں اس لئے تقویت حاصل ہوئی کہ بڑی عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ اور انسانی حقوق کے نمائندہ عالمی اور علاقائی اداروں نے بھارت کے معاملہ میں دہری پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم کی جانب اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھی بھارت کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وہ کشمیریوں کا عرصہ¿ حیات تنگ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ مودی سرکار کا پانچ اگست 2019ءکا جنونی اقدام اسکی زندہ مثال ہے جس کے تحت اس نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنایا۔ اس بھارتی اقدام کیخلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا‘ یواین سلامتی کونسل‘ یورپی پارلیمنٹ‘ امریکی کانگرس اور برطانوی پارلیمنٹ سمیت دنیا کے ہر نمائندہ ادارے نے بھارت کیخلاف مذمتی قراردادیں منظور کیں مگر مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی جبکہ اس نے متعدد قیادتوں کی ثالثی کی پیشکش بھی رعونت کے ساتھ مسترد کر دی۔
اب وزیراعظم شہبازشریف نے متحدہ عرب امارات کے امیر سے پاکستان بھارت مذاکرات کیلئے ثالثی کی پیشکش کی ہے تاہم بھارت کے اب تک کے طرز عمل کی بنیاد پر اسکے کسی تیسرے فریق کے ذریعے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہونے اور کشمیر کی 19 اگست 2019ءسے پہلے کی حیثیت بحال کرنے کیلئے کسی بھی دباﺅ کو قبول کرنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ایسے مذاکرات تب ہی سود مند ہو سکتے ہیں جب بھارت یواین قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو استصواب کا حق دینے پر آمادہ ہو۔ بصورت دیگر بھارت کے ساتھ مذاکرات بے سود اور کشمیریوں کا اپنی آزادی کیلئے گزشتہ 75 سال سے جاری سفر کھوٹا کرنے کے مترادف ہوگا۔