اعلیٰ تعلیم کی موجودہ صورتحال اور پوسٹ کووڈ 19 کلاس روم‘‘
یونیورسٹی آف سرگودھا کے آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کے زیر اہتمام خصوصی لیکچر
جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اس زمانے کو تخلیقی پاکستانی ذہن کی ضرورت ہے
تحریر: محمد عثمان
کیا کووڈ 19کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ یا پھر اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں؟کیا کورونااب دوبارہ سے اپنا سر نہیں اٹھائے گا یا پھر سے انسانوں میں اپنا خوف طاری کرنے دوبارہ آرہا ہے؟ خطرناک وائرس کے متعلق اب بھی بہت سے سوال انسانوں کے ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں لیکن یہ امردرست ہے کہ کووڈ 19 اب بھی کسی نہ کسی شکل میں اور مختلف انداز میں موجود ہے تاہم اب یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کورونا اب اْس طرح سے پْر اثر اور طاقت ور نہیں ہے جس طرح سال 2020ء میں اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور لاکھوں لوگ لقمہء اجل بن گئے۔ اس وقت یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ یہ وائرس پھر سے سر اٹھا رہا ہے اور ہمسایہ ملک چائینہ میں اس سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ۔انہی امور کو مدِنظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی آف سرگودھا کے آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کے زیر اہتمام ایک روزہ خصوصی لیکچر بعنوان ’’پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی موجودہ صورتحال اور پوسٹ کووڈ 19 کلاس روم‘‘ کا اہتمام کیا گیا اس اہم موضوع پر لیکچر وطن عزیز کے نامور منتظم، سکالر اور استاد ڈاکٹر سید محمد جنید زیدی (ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز) نے دیا۔ وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے عظیم استاد کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آج علم و تحقیق کا ایک روشن باب ہمارے درمیان موجود ہے جن کے اہم، غیر معمولی مثبت تعمیری کاموں اور کامیاب علمی تجربات سے ہمارے تعلیمی اداروں نے وہ سنگ میل عبور کئے جس کی ہمیں بہت کم مثال ملتی ہے۔ ڈاکٹر زیدی نے مشرق کی عظیم علمی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کی اور مغرب کی جامعات سے بھی استفادہ حاصل کیا۔ انہوں نے یہ بات فخریہ انداز میں بتائی کہ ڈاکٹر سید محمد جنید زیدی میرے استاد ہونے کے ساتھ ایک بہت نفیس انسان ہیں اور ان کی شخصیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان دوست ہیں اور طالب علموں سے اپنی اولاد کی طرح بے پناہ پیار اور محبت کرنے والے عظیم معلّم ہیں۔ پاکستان کی علمی عظیم درسگاہ کامسیٹ کی ترقی کا راز ڈاکٹر زیدی کی ان تھک محنت، ہمت اور لگن میں پوشیدہ ہے۔اس موقع پر ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومنٹیز پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس گوندل‘ ڈائریکٹر اورک پروفیسر ڈاکٹر فاروق انور‘ چیئرمین شعبہ سوشیالوجی و کرمنالوجی پروفیسر ڈاکٹر میاں غلام یٰسین‘ ڈائریکٹر ملک فیروز خان نون بزنس سکول پروفیسر ڈاکٹر غلام علی بھٹی‘ کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر محمد بشیر‘ پرنسپل کالج آف فارمیسی ڈاکٹر محمد عثمان منہاس‘ ریذیڈنٹ فہیم ارشد‘ ڈائریکٹر کیو ای سی ڈاکٹر سائرہ اظہر‘ تمام شعبہ جات کے صدور، اساتذہ، انتظامی افسران اور طلباء و طالبات موجود تھے۔ اپنے خصوصی خطاب میں ڈاکٹر سید محمد جنید زیدی نے کہا کہ کوویڈ19کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے جامعات کو بند کرنا پڑا اور تعلیمی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں تاہم کچھ وقت گزرنے کے بعد جامعات نے آن لائن کلاسز کے ذریعے فاصلاتی تعلیم کے تصور کوعملی شکل دی جس کے کافی حد تک مثبت نتائج سامنے آئے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں مزید ایسی صورتحال کیلئے تیار رہنا چاہیے تاکہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں، اس کیلئے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیمی نظام کو اداروں میں رائج کرنا چاہیے، طلبہ کو آن لائن وفزیکل تعلیم دونوں تجربات سے استفادہ کرنے کے مواقع فراہم کرنا چاہئیں۔ اگر ہم طلبہ اور اساتذہ کے در میان مثبت روابط کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو تعلیمی اداروں کو وبائی مرض سے پہلے کی حالت میں جانے کی بجائے کوویڈ صورتحال سے سیکھنا چاہیے۔ڈاکٹرسید محمد جنید زیدی نے نشاندہی کی کہ پاکستانی جامعات مضبوط کلاس روم ٹیچنگ کے حوالے سے جانی جاتی ہیں تاہم اثر انگیز تحقیق کے ذریعے معاشرے کی سماجی و اقتصادی ترقی میں اضافہ کا باعث نہیں بن پا رہیں۔ اثر انگیز تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے اکڈیمیا اور انڈسٹری میں فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ محققین انڈسٹری کے خدشات اور تحفظات دور نہیں کر پا رہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی جامعات کو چاہیے کہ امپیکٹ فیکٹر ریسرچ کے ذریعے انڈسٹری اکڈیمیا کے درمیان روابط کو فروغ دیں۔ ڈاکٹر سید محمد جنید زیدی نے اس موقع پر مزید کہا کہ جدید مشینی، آئن لائن اور ٹیکنالوجی سے آراستہ اس زمانے کو ایک تخلیقی پاکستانی ذہن کی ضرورت ہے کیونکہ ملک و ملّت کی خدمت ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ بھی ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے سرگودھا یونیورسٹی آمد پر ڈاکٹر سید محمد جنید زیدی کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ طلبہ کو معیاری تعلیم کے ساتھ عملی تربیت فراہم کرنا اوّلین ترجیح ہے جبکہ تحقیقی معیار کو بڑھانے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تحقیقی نتائج سے سماجی و اقتصادی فلاح و بہبود کی راہ ہموار ہو۔ تقریب کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے ڈاکٹر سید محمد جنید زیدی کو یادگاری سووینئر پیش کیا۔