ڈاکٹر سلیم اختر
عدم اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے بالآخر اسمبلی تحلیل کر دی جس کے بارے میں غالب گمان یہی تھا کہ چودھری صاحب عمران خان کے کہنے پر اسمبلی ہرگز تحلیل نہیں کرینگے۔ دو ہفتے قبل چودھری پرویزالٰہی کے اس بیان نے مزید مہر ثبت کر دی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں کسی نے ہرزہ سرائی کی تو میں وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرا کہ چودھری صاحب عمران خان کو صرف طفل تسلیاں ہی دے رہے ہیں اور وہ پنجاب میں کسی صورت اپنی حکومت کا خاتمہ نہیں کرینگے جبکہ حکومت نے بھی ان سے اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ عمران خان اپنے ہر بیان میں دوٹوک الفاظ میں یہی باور کراتے رہے کہ 11 جنوری کو ہر قیمت پر اسمبلی تحلیل کردی جائیگی۔ گیارہ جنوری گزر جانے کے بعد ایک بار پھر سیاسی حلقوں میں یہ شور بپا ہوا کہ پنجاب اسمبلی کسی صورت نہیں تحلیل کی جائیگی جبکہ چودھری شجاعت نے بھی پورے یقین کے ساتھ بیان دیا کہ اسمبلی کسی صورت تحلیل نہیں ہوگی۔ دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری بھی متحرک ہو چکے ہیں تاکہ کسی صورت پنجاب اسمبلی کو بچایا جا سکے۔ لیکن چودھری پرویزالٰہی نے اس وقت سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا جب گزشتہ ہفتے انہوں نے طویل سیشن کے بعد اسمبلی سے رات 12 بجے اعتماد کا ووٹ لے کر اگلے روز اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو بھجوا دی۔ اب نگران سیٹ اپ کے بعد پنجاب کیلئے وزارت اعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ شروع ہو گا۔ گو کہ سندھ کے بدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے میدان مار لیا ہے جس پر جیتنے والے بغلیں بجا رہے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے‘ اگر یہاں پیپلزپارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں معرکہ مار بھی لیا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ان انتخابات میں ٹرن آئوٹ بھی بہت کم رہا جس کی وجہ وہاں کی بڑی جماعت ایم کیو ایم کا انتخابات کا بائیکاٹ اور پی ٹی آئی کی الیکشن کیلئے کمپین نہ چلانا ہی سمجھا جا رہا ہے۔ اصل دنگل کا میدان تو پنجاب میں سجے گا جس میں (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ٹکر کا مقابلہ متوقع ہے کیونکہ پنجاب بالخصوص لاہور تو (ن) لیگ کا مرکز ہے۔ اگر جوڑ توڑ اور ہارس ٹریڈنگ نہ کی گئی اور الیکشن کمیشن بھی غیرجانبدار رہا تو پی ٹی آئی پنجاب کا میدان آسانی سے مار سکتی ہے۔ اس کا سب سے بڑی وجہ عمران خان کا بیانیہ ہے جس نے اب بھی عوام کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے اور عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔
پی ڈی ایم نے مہنگائی کو جواز بنا کر جب عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد اپنے اقتدار کی راہ ہموار کی تو اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں عوام عاجز آئے ہوئے تھے اور عوام میں عمران خان کی مقبولیت کا گراف بھی گر چکا تھا۔ اتحادی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد عوام میں امید پیدا ہوئی کہ مسند اقتدار پر آنے والی اتحادی حکومت جن حالات میں اقتدار میں آئی ہے اور مہنگائی کے خاتمہ کا عزم لے کر آئی ہے جبکہ وزیراعظم نے بھی قوم سے وعدہ کیا کہ عوام کو ریلیف دینا انکی اولین ترجیح ہے تو قوم نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر آج اتحادی حکومت کو اقتدار میں آئے 9 ماہ گزر چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے عوام کو صرف طفل تسلیاں ہی دی جا رہی ہیں۔ حکومت کے ہزار دعوئوں کے باوجود مہنگائی کا گراف نیچے نہیں جا سکا بلکہ اس نو ماہ میں مہنگائی کا 14 سالہ ریکارڈ بھی توڑ ڈالا۔ جن کاموں کو ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے تھا‘ انہیں بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ نیب کو غیرمؤثر کیا گیا اور اپنے کیسز ختم کرائے گئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پنجاب کے معرکے میں اتحادیوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ (ن) لیگ انتخابات کا طویل تجربہ رکھتی ہے‘ پولنگ سٹیشنز پر اسکی گرفت ہمیشہ مضبوط رہی ہے۔ اسکے مقابلہ میں پی ٹی آئی بالکل ناتجربہ کار ہے‘ اسکی یہ کمزوری اس کیلئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ ابھی تو بہت سے امتحانات باقی ہیں‘ ابھی تو نگران وزیراعلیٰ کیلئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا متفق ہونا باقی ہے۔ اب تک کی خبروں کے مطابق دونوں کا ناصر کھوسہ پر اتفاق ہوتا نظر آرہا ے۔ اگر مجوزہ ناموں میں سے کسی بھی نام پر اتفاق نہ ہوا تو پھر سپیکر پنجاب اسمبلی کی طرف سے 6 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائیگی جس میں دونوں فریقین کے تین تین نمائندے شامل ہونگے۔ ان میں سے دو کے نام تجویز کئے جائیں گے۔ اگر اس پر بھی اتفاق رائے نہ ہوا تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن کی طرف چلا جائیگا جو ان ناموں میں سے ایک نام منتخب کریگا جو حتمی تصور کیا جائیگا۔ اسکے بعد انتخابات کا مرحلہ آئیگا۔ اس وقت تک نہ جانے کتنے برج الٹ چکے ہونگے کیونکہ یہ بھی خبر سامنے آرہی ہے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کر چکی ہے جہاں وہ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے گی۔ دیکھیں! ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔