سیاست مفادات کا کھیل ہوتا ہے اور اسکو بیرحم بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ماضی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اس قسم کا واویلا دیکھنے میں آیا نہ سننے میں پارٹی کے وہ کارکن جن کی پارٹی کے لیے بے مثال قربانیاں تھیں مشرف آمریت اور عمرانی جارحیت میں نہ صرف انکو بلکہ انکے خاندان کو بھی بربریت کا نشانہ بنایا گیا ان کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے پرویز مشرف دور میں شریف فیملی کی گارنٹی کے طور پر پاکستان میں صعوبتیں جھیلنے والے حمزہ شہباز کی مثال دیکھ لیں ساری فیملی سعودیہ میں تھی تو پرویز مشرف کی آمریت کو پاکستان میں ڈٹ کر کھڑے رہنے والوں میں حمزہ شہباز سر فہرست ہیں ان کے علاوہ بھی کافی لوگ ہیں مشرف آمریت میں مسلم لیگ ن کو زندہ رکھنے والوں میں لیگ کے وہ کارکن سخت مایوسی کا شکار ہیں صوبائی دارلحکومت یعنی تخت لاہور وہ سیاسی قلع ہے جو پارٹی اقتدار کا حصول چاہتی ہے وہ لاہور کو واقعی اپنا قلعہ ثابت کرتی ہے مسلم لیگ ن نے ہمیشہ اقتدار کے حصول کیلئے لاہور کی تنظیم کو طاقتور بنائے رکھا تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور قیادت سے ناراض نظر آرہا ہے مشرف کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے نواز شریف کے سپاہی حمزہ شہباز کے جانثار عمران گورایہ 2007 میں ٹکٹ سے محروم رہے اس امید پر کہ قائدین کا ملک میں واپس آنا زیادہ خوشی کی بات ہے اسمبلی پہنچنا عارضی خوشی ہے 2016 میں بلدیاتی انتخابات میں بھی قائدین کی شفقت سے محروم رہ گئے عمران خان دور میں نہ صرف پہلے گھر چھوڑنا پڑا بلکہ کاروبار کی بندش بھی برداشت کرنی پڑی عمران گورائیہ اس مرتبہ مطمن تھے کے اب انکو حق ضرور ملے گا مگر افسوس عمران گورائیہ اپنی تمام تر وفاداریوں کے باوجود ان پیراشوٹرز پیروں تلے روندے گئے جنکی حکومتیں ماضی میں انہیں اپنے جبر کا نشانہ بناتی رہیں مسلم لیگ ن کا وہ سپاہی کبیر تاج جو نواز شہباز کے جانثاروں میں شمار ہوتے ہیں وہ بھی روندے گئے سید توصیف شاہ جنکی تعریف مریم نواز بھی میٹنگز میں کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کو بھی نظر انداز کردیا گیا اشفاق مولن اپنی معذوری کے باوجود پارٹی کی بہتری کے لئے خدمات انجام دیتے رہے اسکے علاوہ شہباز غوث مردان علی زیدی جو مسلم لیگ کے لیے اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کرنے کے عوض اپنا کاروبار بھی تباہ کرچکے مگر وفادرایاں تبدیل نہیں کیں قید و بند کی صعوبتیں سہیں مگر وہ بھی اس مرتبہ پھر سیٹ ایڈجسمنٹ کی بھینٹ چڑھ گئے اور بہت ذیادہ ایسے لوگ جو نظر انداز ہوچکے ہیں اگر نام لکھنے بیٹھوں تو کئی صفحات کم پڑھ جائیں گے۔ سمجھ نہیں ایا کہ قائد میاں نواز شریف کا کبھی بھی یہ ویژن نہیں رہا مگر اس مرتبہ الیکشن 2024 کیلئے مسلم لیگ ن کے قائد نے اپنی ترجیحات کو تبدیل کیا ہے اور ٹکٹوں کی تقسیم میں یہ ترجیحات واضح ہیں۔مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریفب جب بھی اقتدار سے نکالے گئے اس کے بعد انہوں نے بہت کچھ سیکھا اس بار بھی لندن قیام کے دوران طے کئے گئے اہداف کی تکمیل ہو رہی ہے ؟ کیا ان اہداف میں کارکنوں کو نظرانداز کرنا بھی پالیسی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو مسلم لیگ ن کے قائد کیا سوچ رہے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا احاطہ کرنا ہوگا۔موجودہ سیاست ماضی کی سیاست سے یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔پی ٹی آئی نے سیاسی دھارے کو الٹا کررکھا دیا ہے۔خاص طور پر سوشل میڈیا نے سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ن لیگ متوالے خود کو قیادت کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہوسکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا سے ناواقف ہوں گے تو یہ قیادت کا بھی امتحان ہو گا کہ وہ دور جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھیں یا وفاداری کو شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی پالیسیاں بھی تبدیل ہوئی ہیں البتہ یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ کیا یہ درست عمل ہے یا اسکا پارٹی کو نقصان ہوگا