مسٹر فریڈ سے ایک سیاسی مکالمہ 

سخت سردی اور رات بھر سے جاری Snow Flakes سے لطف اندوز ہونے کیلئے اپنے لکھنے پڑھنے کے کمرے میں صبح سے جاری سنٹرل ہیٹنگ کا ٹمپریچر قدرے کم کرنے کیلئے اٹھا ہی تھا کہ ڈور بیل ہوئی۔ ’’نورپیر دے ویلے‘‘ ٹھیک صبح دس بجے اس غیرمعمولی سرد موسم میں کون ہو سکتا ہے؟ دروازہ کھولا تو اپنے اسی بزرگ گورے کیپٹن (ر) فریڈ کو بھاری بھرکم جیکٹ‘ گرم ٹوپی‘ فرگلوز ہاتھ میں واکنگ سٹک اور دائیں بازو میں ’’دی اکانومسٹ‘‘ کا تازہ ترین پرچہ تھامے مسکراتے ہوئے کھڑا پایا۔ دروازہ کھولتے ہی اسے میں اپنے گرم کمرے میں لے آیا۔ مجھے حکم کیا ہوتا‘ فون پر اطلاع کر دی ہوتی تو آپ کو میں خود پک اپ کرنے آجاتا۔ میں نے فریڈ کے شکریہ سے پہلے ہی انکے احترام میں یہ فقرے کہہ دئیے۔ So nice of you تاہم مجھے یہ افسوس ضرور ہے کہ بغیر ٹیلی فون کئے تمہیں زحمت دے رہا ہوں۔ ’’مائی آنر‘ چائے یا کافی‘‘۔ میں نے پوچھا۔ ’’کافی بہتر رہے گی‘‘ اور پھر دوبارہ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فریڈ نے سرد موسم پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے درِدولت پر اس 5 سی ٹمپریچر میں بغیر اطلاع آنا تو نہیں چاہتا تھا مگر ’’سیر اور سازہ ترین خبر کے حوالے سے تمہاری رائے لینے نے مجبور کر دیا۔‘‘ لفظ ’’سیر‘‘ سنتے ہی مجھے حیرت تو ہوئی مگر کیپٹن (ر) فریڈ کے ڈسپلن‘ صاف گوئی اور عسکری و سیاسی علم کا چونکہ میں ایک طویل عرصے سے معترف ہوں اس لئے حس مزاح کے طور پر میں انکے لفظ ’’سیر‘‘ کی ادائیگی پر انہیں میں نے ایک انتہائی شستہ مذاق کیا جس پر کھلکھلا کر بھرپور قہقہہ لگایا اور پھر قدرے توقف کے بعد بولے! فوجی کتنا ہی عمر رسیدہ کیوں نہ ہو جائے‘ خراب موسم اور سخت چہل قدمی کی وہ کبھی پرواہ نہیں کرتا کہ اسکی تربیت میں Achieving Goals کو ہی منزل تصور کیا جاتا ہے۔ Had my gear on اس لئے گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں اور یوں بھی تم سے حالات حاضرہ‘ پاکستان کی معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کرنے میں لطف آتا ہے۔ فریڈ نے کافی کا پہلا گھونٹ اور ادرک کا  بسکٹ کھاتے ہوئے کہا۔ حکم کیجئے! اس سخت سردی میں آج کیسے آنا ہوا اور ساتھ ہی فریڈ نے دی اکانومسٹ کا وہ صفحہ الٹ دیا جس میں سابق وزیراعظم اور بانی تحریک انصاف عمران خان کا حال ہی میں شائع ہونیوالا انٹرویو اور مسٹر ڈین ولیم کی تیار کردہ گرافک تصویر نمایاں تھی۔ مؤقر اور بین الاقواتی شہرت کے حامل ’’دی اکانومسٹ‘‘ کے مطابق جیل سے تحریر کردہ اس مکتوب میں بانی تحریک انصاف نے کہا ہے کہ نگران حکومت کے احکامات کے زیراثر 8 فروری کو متوقع انتخابات محض ایک ڈرامہ ہوگا جو آئین وقانون کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اسی طرح نگران حکومت کے زیر انتظام چلنے والا وفاقی اور صوبائی نظام قطعی غیرآئینی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کمیشن نے 90 روز میں انتخابات کروائے اور نہ ہی اسمبلیاں تحلیل کیں۔ انٹرویو میں سابق وزیراعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو جانبدارانہ رکاوٹوں سے اس لئے دوچار کیا جارہا ہے تاکہ انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ نہ دی جا سکے۔ 
آرٹیکل پڑھنے کے بعد پرچہ واپس کرتے ہوئے کیپٹن فریڈ سے اس حوالے سے میں نے جب کوئی سوال پوچھنے کا کہا تو فریڈ کا پہلا سوال یہ تھا کہ جیل سے دیا یہ انٹرویو کیا واقعی عمران خان کا ہے؟ مجھے معلوم تھا کہ آپ یہ سوال ضرور پوچھیں گے۔ میں نے فریڈ کو کہا۔ انٹرویو اور گرافک تصویر جب ’’اکانومسٹ‘‘ میں شائع ہوگئی۔ پرچے کی انتظامیہ نے اس بارے میں ٹویٹ پر اقرار بھی کرلیا تو پھر شک کی گنجائش کیسی؟ تاہم نگران حکومت کے وزیر اطلاعات کی رپورٹ اس بارے میں مختلف ہے۔ میں نے کیپٹن فریڈ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ موجودہ دور اب آرٹیفشل انٹیلی جنس جرنلزم کا ہے جو بعض حالتوں میں اب حیرت کا باعث بن رہا ہے۔ یہ اطلاعات بھی آپ کو دیتا چلوں کہ برطانوی ایئرپورٹس پر بھی عنقریب مسافروں کو پاسپورٹ دکھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نئے آرٹیفشل انٹیلی جنس نظام کے تحت ایئرپورٹ سے گزرنے والے کسی بھی مسافر کے بارے میں حکام کو بہت پہلے معلومات حاصل ہو چکی ہوں گی جن میں مسافر کے برطانیہ میں رہنے اور اسکے امیگزیشن نظام پر پورا اترنے کا تمام بائیوڈیٹا موجود ہوگا۔ تاہم تمام مسافر مخصوص دروازوں سے گزر کر ایئرپورٹ سے باہر آسکیں گے۔ Fantastic۔ فریڈ نے میری ان معلومات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اچھا یہ بتائو 8 فروری 2024ء کو پاکستان میں واقعی الیکشنز ہونے جا رہے ہیں؟ فریڈ نے اپنا سیاسی چسکا پورا کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ ’’وائی ناٹ‘‘۔ سپریم کورٹ کے ’’پتھر پر لکیر‘‘ کے حکم کی روشنی میں انتخابات میں اب صرف 20 روز باقی ہیں۔ تاہم ہمارے ہاں جمہوری اقدار اور جمہوری نظام چونکہ مستحکم نہیں اس لئے حکمرانوں کے بعض فیصلے عوام کو غیریقینی صورتحال سے ضرور دوچار کر دیتے ہیں۔ اسکی ایک حالیہ مثال اگلے روز سینٹ میں دیکھنے کو ملی جہاں مبینہ طور پر بغیرکورم پورا کئے انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا جبکہ سینٹ میں دوبارہ انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پیش کر دی گئی۔ آخر ی سوال فریڈ نے ’’کافی کا آخری گھونٹ پیتے ہوئے کیا! ضرور! پولیس پر تحریر کردہ تمہارا حالیہ کالم میں نے پڑھا۔’’ ویری انفارمیٹو۔ مگر پنجاب پولیس کے آئی جی سمیت اہلکاروں اور افسروں پر تم نے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھا ہے۔ وجہ بتائوگے؟‘‘ فریڈ نے قہقہہ لگاتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہتھ ہولا‘‘ بالکل نہیں رکھا۔ اساتذہ کرام کی عزت و احترام اور انکی تکریم کی یاددہانی کروائی ہے۔ ہاں! البتہ یہ سچ ہے کہ پولیس میں بعض کالی بھیڑیں بے گناہ بچوں‘ خواتین کی چدر اور چادر دیواری کا احترام نہیں کررہیں۔ میرے ذرائع کے مطابق اب بھی خواتین کی بے حرمتی کا عمل جاری ہے۔ بات مکمل کر نہیں پایا تھا کہ فریڈ کی رنگ حمیت پھڑکی اور اس نے ٹرانسپیرنسی کے نیشنل کرپشن سروے رپورٹ برائے 2023ء کا حوالہ دیتے ہوئے محکمہ پولیس کی 30 فیصد شرح کو کرپٹ ادارہ قرار دیتے ہوئے مجھ سے اجازت لی کہ سخت سرد موسم کے تیور مزید بدل رہے تھے۔ 

ای پیپر دی نیشن