’’برکاتِ خواجہ غریب نواز سے خانۂ کعبہ تک !‘‘ (1)  

معزز قارئین !۔دُنیا بھر کے مسلم ممالک میں 6 رجب اُلمرجب 1445ہجری (18 جنوری 2024ء) سے ، خواجہ غریب نواز، نائب رسولؐ فی الہند ،حضرت معین اُلدّین چشتی کا 793 واں یوم وِصال منایا جا رہا ہے۔ عُرس مبارک کئی دِنوں تک چلے گا۔صدیوں سے اجمیر بھارت کے صوبہ راجستھان میں آباد میرے آبائو اجداد نے خواجہ غریب نواز کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب ، تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا ۔ 1955ء میں میرے والد صاحب مجھے پہلی بار لاہور لائے اور اُن کی رہنمائی میں مَیں نے احاطہ ٔ دربار حضرت داتا گنج بخش میں خواجہ غریب نواز کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر بارگاہِ داتا صاحب میں ۔ پھر میرا یہ معمول بن گیا۔
’’محافلِ میلاد شریف!‘‘
میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جایا کرتے تھے ۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا تو، اردو زبان میں پہلی نعت لِکھی،جو لائل پور ( اب فیصل آباد )کے ایک روزنامہ میں شائع ہُوئی۔ 1960ء میں مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ اے ۔ فائنل کا طالبعلم تھا جب ، مَیں نے مسلکِ صحافت اختیار کِیااور مَیں باقاعدہ اُردواور پنجابی زبان میں شاعری کرنے لگا۔ فروری1964ء میں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کردِیا۔ 
’’صدارتی انتخاب! ‘‘ 
معزز قارئین ! 2 جنوری 1965ء کو، جب فوجی آمر فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان ( صدر پاکستان کنونشن مسلم لیگ ) کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ’’پاکستان مسلم لیگ کونسل‘‘ کی امیدوار تھیں اور پھر متحدہ اپوزیشن نے اُنہیں اپنا امیدوار مقرر کِیا تو،  ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا ۔ 
’’ مادرِ ملّت سے ملاقات !‘‘
معزز قارئین! صدارتی انتخاب سے پہلے ، ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّت کی انتخابی مہم کے انچارج ، تحریک پاکستان کے نامور کارکن قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ کو ،لاہور لائے ۔ مادرِ مِلّت سے ہماری ملاقات ہوئی تو اُسی وقت  تحریکِ پاکستان کے دو (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاک پتن کے چودھری محمد اکرم طورؔ نے بھی مادرِ مِلّت سے ملاقات کی۔ پھر (چیئرمین پیمرا ، مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب ) مرزا شجاع اُلدّین بیگ اور (پنجابی ، اردو کے نامور شاعر  سعید آسیؔ کے والد صاحب ) چودھری محمد اکرم طور سے دوستی ہوگئی۔ پھر اُن کے بیٹوں سے ۔ تحریک پاکستان کے دَوران ، مرزا شجاع اُلدّین امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوا اور چودھری محمد اکرم طور نے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا ، پھر پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اور سعید آسیؔ سے میری دوستی گہری ہوتی گئی۔ 
’’ ذوالفقارِ علی ؓ!‘‘
معزز قارئین !۔ 25 فروری 1969ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزندِ اوّل عطا کِیا۔ مَیں نے اپنے والد صاحب، تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکُن رانا فضل محمد چوہان کی فرمائش پر اِس کا نام ’’ذُوالفقار علی چوہان ‘‘رکھا۔ ذوالفِقارؔ کے بارے میں مجھے معلوم تھا ‘‘۔ کہ وہ دو دھاری تلوار جو پیغمبرِ اِنقلاب ﷺ کو غزوۂ بَدر میں مالِ غنیمت میں ملی تھی‘‘۔ ذوالفِقارؔ پر دندانے اور کُھدی ہُوئی لکیریں تھیں‘‘۔ آنحضرت نے ذُوالفِقارؔ ۔ حضرت علیؓ  کو عطا کردی۔ اور اُس کا نام ’’ ذوالفِقارِ علی‘‘ پڑ گیا۔ اُن دِنوں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دَور تھا جب وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کی طرف سے اکتوبر 1973ء میں مجھے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے دو صحافی دوستوں ( اب مرحومین ) انتظار حسین اور سعادت خیالی کے ساتھ جمہوریہ ترکیہ کے دورے پر جانے کا موقع ملا ، ہم تینو ںنے استنبول کے "Topkapi Museum" میں رسول اکرم ﷺ اور خُلفائے راشدہ ؓکے ( زیر استعمال) تبرکات کی زیارت کی ۔ ’’ذُوالفِقار علیؓ‘‘ کی بھی ۔ 
ذوالفقارِ علی ؑ جمہوریہ تُرکیہ کے شہر استنبول کے ’’ طوپ کاپی میوزیم‘‘ میں نبی کریمؐ اور خُلفائے راشدہؓ کے تبرکات کے ساتھ محفوظ ہے۔ مَیں نے ذوالفقار علیؓ کی دوبار زیارت کی۔ پہلی بار جب مَیں اکتوبر 1993ء میں اپنے دو مرحوم دوستوں انتظار حسین اور سعادت خیالی کے ساتھ جمہوریہ تُرکیہ کے دورے پر تھا اور دوسری بار ستمبر 1991ء میں جب مَیں صدرغلام اسحاق خان کے دورۂ تُرکیہ میں اُن کی میڈیا ٹیم کا رُکن تھا۔
’’برکاتِ خواجہ غریب نوازؒ!‘‘
معزز قارئین ! 1969ء میں مَیں باقاعدہ سرگودھا میں "Shift" ہوگیااور11 جولائی 1973ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا۔1980ء کے اوائل میں میرے خواب میں ،خواجہ غریب نواز میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔آپ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟‘‘۔ پھر خواجہ غریب نوازؒ کی برکات سے میرے لئے ،مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے تھے ، پھر کیا ہُوا؟۔ 
’’مولاعلیؓ  کا سایۂ شفقت !‘‘
معزز قارئین! خواجہ غریب نوازکی برکات سے ، مَیں نے ستمبر 1983ء میں خواب میں دیکھا کہ ’’ مَیں ایک دلدل میں پھنس گیا ہُوں میرا جسم دلدل میں دھنستا جا رہا تھا ۔ اچانک میرے مُنہ سے ’’ یاعلیؓ!‘‘ کا نعرہ بلند ہُوا۔ مجھے یوں محسوس ہُوا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے بتایا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؓ  کا سایۂ شفقت ہے!‘‘، پھر میری قسمت کا ستارہ مزید روشن ہوگیا۔ 
’’ حاصلِ زندگی !‘‘
روزنامہ ’ ’ سیاست‘‘ لاہور کے ایڈیٹر اور مختلف قومی اخبارات کے کالم نویس کی حیثیت سے مَیں مختلف صدورِ مملکت اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے ساتھ آدھی دُنیا کی سیر کر چکا تھا، پھر یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ’’ مجھے ’’ نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے  ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے ،اُن کے ساتھ ، خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی۔معزز قارئین !۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ اِس کا ثواب یقینا جنابِ مجید نظامی کو ، بھی ملا ہوگا!‘‘۔ 
(جاری ہے )

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...