انہیں طبعی آفات سے پاک اور نفس کی پیروی سے بلند کر دیا ہے ۔ اب ان کی ہمتیں اور ارادے سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کچھ نہیں ۔ یہ اللہ کے بندے پہلے بھی موجود تھے اب بھی ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گے ۔ حضرت ابو علی جر جانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولی وہ ہے جو اپنے حال سے فانی اور مشاہدہ حق میں باقی ہو ، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذات کی کوئی بات کرے ۔ یا پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے آرام و سکون پائے ۔
حضرت ابو یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ولی کون ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ولی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے امر ونہی پر قائم رہے ۔ اس لیے کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہوگی اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی عظمت بھی زیادہ ہوگی ۔
حضرت ابو سعید کی خدمت میں ایک شخص آیا اس نے مسجد میں پہلے بایاں پائوں رکھا ۔آپ نے فرمایا اسے واپس بھیج دو جو محبوب کے گھر میں داخل ہونے کے اداب نہیں جا نتا وہ ہمارے کس کام کا۔
حضرت ابو یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے کسی نے بتایا کہ فلاں شہر میں اللہ کا ولی موجود ہے ۔ میں بھی اس کی زیارت کے لیے روانہ ہوا اس کی مسجد میں پہنچا تو وہ بھی گھر سے مسجد میں آیا اور آتے ہی اس نے مسجد میں تھوک دیا ۔میں وہی سے بغیر سلام و کلام کے واپس ہو گیا اور کہا کہ ولی کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی پابندی کرے تا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ولایت کی حفا ظت کرے اگر یہ شخص اللہ کا ولی ہوتا تو مسجد میں نہ تھوکتا ۔ مسجد کی عز ت و حرمت کا خیال کرتا یا اللہ تعالی اسے اس بات سے محفوظ رکھتا ۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا تم ولی اللہ بننا چاہتے ہو اس نے کہا ہاں ۔آپ نے فرمایا: دنیا و آخرت کی رغبت چھوڑ دے اس لیے کہ دنیا کی رغبت ایک فانی چیز کی خاطر خدا تعالیٰ سے روگردانی کرنا ہے اور آخرت کی رغبت ایک باقی رہنے والی چیز کی خاطر اللہ تعالی سے رو گردانی کرنا ہے ۔اگر فانی چیز سے اعراض ہے تو فانی کے فنا ہونے کے ساتھ یہ اعراض بھی باقی نہیں رہے گا ۔لیکن اگر باقی رہنے والی چیز سے اعراض ہے تو اس پر فنا نہیں ہو گی ۔ لہٰذا اپنے آپ کو دونوں جہانوں سے فارغ کر کے اللہ تعالی کی دوستی کے لیے تیار کرو اوردنیا و آخرت کو اپنے دل میں راہ نہ دو اور خدا کی طرف دلی توجہ کرو ۔ تیرے اندر یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو ولایت دور نہیں ۔