انتخابی نشانات کی تبدیلی  انتخابات میں تاخیر کا خدشہ

انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد مختلف فورمز سے انتخابی نشان تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے بعد تینوں پرنٹنگ کارپوریشنز کو بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا آرڈر دے چکا ہے اور پرنٹنگ کا کام شروع ہو گیا ہے۔ اگر اسی طرح انتخابی نشانات کی تبدیلی کا عمل جاری رہا تو اس سے ایک طرف تو الیکشن میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بیلٹ پیپر دوبارہ پرنٹ کروانا پڑیں گے جس کے لیے پہلے ہی وقت محدود ہے اور دوسری طرف جو سپیشل کاغذ بیلٹ پیپرز کے لیے مہیا ہے، وہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ 2018 ء کے انتخابات میں 11700 امیدواروں نے حصہ لیا تھا جن کے لیے 220 ملین بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے تھے اور اس بار 18059 امیدوار میدان میں ہیں جن کے لیے 260 ملین بیلٹ پیپرز چھپوائے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے بار بار جو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اب انتخابی نشان تبدیل نہ کیے جائیں لیکن یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور اگر انتخابی نشانات کو تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ نہ رکا تو ان انتخابی حلقوں میں الیکشن ملتوی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہے گا جہاں کے امیدوار انتخابی نشان تبدیل کروا رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے مخصوص حکمت عملی کے تحت یہ سب کچھ کیا جارہا ہو تاکہ کسی بھی طرح انتخابات کے انعقاد کو التوا کا شکار کیا جاسکے۔ یہ صورتحال بہت افسوس ناک ہے اور الیکشن کمیشن کے علاوہ سپریم کورٹ کو بھی اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے کیونکہ اس وقت ملک جن حالات میں الجھا ہوا ہے ان سے نکلنے کے لیے عام انتخابات کا ہونا اور ایک منتخب حکومت کا تشکیل پانا بہت ضروری ہے بصورتِ دیگر معاشی اور انتظامی مسائل مزید سنگین صورت اختیار کر جائیں گے جن کا حل کوئی بھی فراہم نہیں کرسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن