ایران کے طلسماتی حملے اور جشن 

Jan 18, 2024

عبداللہ طارق سہیل

پاکستان پر ایرانی حملے کی بات کرنا ہو تو اس کے کئی پہلو ہیں جیسے کہ قومی نقطہ نظر، سفارتی پہلو، اخلاقی پہلو، جائز ناجائز کی بات لیکن ان سب پر بات کرنے والے بہت ہوں گے اور وہ سب ایک پہلو کو نظرانداز کر دیں گے، دیکھ لیجئے گا اور وہ ہے طلسماتی پہلو۔ 
جی، یہی اس  کا سب سے قابل غور پہلو ہے۔ ایک دن پہلے ایران نے عراق اور شام میں بھی اہداف پر حملے کئے اور اگلے روز پاکستان میں ایک ہدف پر حملہ کرایا لیکن طلسماتی پہلو یہ ہے کہ ’’ہدف‘‘ تینوں جگہ سے غائب تھے۔ 
پاکستان پر حملہ ہی دیکھ لیجئے۔ ہدف جنداللہ نامی تنظیم کا مبینہ ہیڈ کوارٹر تھا۔ جونہی ایرانی میزائل اور ڈرون موقع پر پہنچے ، ہدف غائب۔نتیجہ میزائل ایک گھر پر گرے، دو کمسن بچیاں شہید اور ان کی ماں زخمی ہو گئی۔ جنداللہ کا ہیڈ کوارٹر کہاں گیا؟۔ یہ کیسا ہیڈ کوارٹر تھا جو کسی غریب کی جھگّی میں قائم تھا اور حملہ ہوتے ہی غائب ہو گیا۔ 
عَین مَین یہی کچھ عراق میں ہو اور عین مین یہی کچھ شام میں ہوا۔ عراق میں بتایا کہ اربیل (کردستان) کے پاس موساد کا ہیڈ کوارٹر تھا چنانچہ میزائل مار دئیے۔ لیکن جیسے ہی میزائل موقع پر پہنچے، ہیڈ کوارٹر غائب، جبکہ میزائل کسی عام آبادی والے محلّے میں ایک عام کرد شہری کے گھر پر گرے، دو بچوں سمیت چار شہید ہو گئے۔ ہیڈ کوارٹر موساد کا ایسا غائب ہوا کہ عراقی حکومت کو بھی پتہ نہیں چل سکا۔ 
شام میں باغیوں  کے زیر کنٹرول علاقے میں ایران نے ’’داعش‘‘ کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔ جیسے ہی میزائل وہاں پہنچے، ہیڈ کوارٹر غائب ہو گیا اور اس کی جگہ غریبوں کیلئے قائم ہونے والی ایک منزلہ غریبانہ ڈسپنسری آ گئی چنانچہ تباہ ہو گئی، کچھ مریض اور ڈاکٹر زخمی ہوئے، جانی نقصان کی بچت ہو گئی ۔ داعش کا ہیڈ کوارٹر کہاں گیا، خود داعش کو بھی نہیں معلوم۔ 
_______________
ادلیب میں داعش کا ہیڈ کوارٹر ہونا طلسماتی سے بھی بڑھ کر ماورائے طلسمی معاملہ ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بنی گالہ کے احاطے میں مسلم لیگ ن کا دفتر ڈھونڈ لے یا وائٹ ہائوس کے کسی کمرے سے ’’حماس‘‘ کا ہیڈ کوارٹر مل جائے۔ 
ادلیب جن مزاحمت کاروں کے قبضے میں ہے، داعش ان کی جانی دشمن ہے۔ ان مزاحمت کاروں کے پاس ایک وقت تھا کہ شمالی اور مشرقی شام کا وسیع علاقے پر قبضہ تھا۔ پھر داعش نے جس کی افرادی اور اسلحی قوت بہت زیادہ تھی، ان پر حملہ کر دیا اور تقریباً سارا علاقہ چھین لیا۔ صرف ادلیب بچا۔ ہزاروں مزاحمت کار داعش نے مار دئیے۔ بعدازاں امریکہ اور روس نے مل کر داعش کو بھی مار بھگایا اور تقریباً اس کا خاتمہ ہی کر دیا۔ داعش اب اس سارے علاقے میں ’’لاموجود‘‘ ہے، اس کا رہا سہا وجود ادلیب سے بہت دور مشرق اور جنوب مشرق میں دیرالزور اور پالمائرا کے صحرائوں میں ہے جہاں وہ چٹانی غاروں میں روپوش ہے اور دو اڑھائی ماہ بعد اس سے کچھ گوریلے نکل کر کوئی واردات کرتے اور پھر جھٹ سے چھپ جاتے ہیں۔ ادلیب میں ان کا ہیڈ کوارٹر، پھر بھی ، ایران والوں نے ڈھونڈ نکالا۔ طلسم نہیں، یہ طلسمات ہے۔ 
_______________
ایران نے یہ تین ’’طلسماتی‘‘ حملے کیوں کئے؟۔ دنیا بھر کے سفارت کار سوچ میں مصروف ہیں۔ شاید ایران نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس کے پاس میزائل موجود ہیں اور وہ انہیں لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نظری اعتبار سے دنیا کو پہلے ہی علم تھا، چلئے اب تجربی طور پر بھی معلوم ہو گیا، اس سے زیادہ کی افادیت کچھ ہے تو چند دنوں تک پتہ چل جائے گا۔ 
عراق پر حملہ کر کے البتہ اس نے گھاٹا کمایا ہے، عراق سفارتی حوالے سے بٹا ہوا ہے بااثر سیاسی طبقات میں سے آدھے ایران سے مضبوط دوستی چاہتے ہیں یعنی آدھے سعودی عرب اور ایران سے تعلقات میں توازن اور عراق پر ایرانی غلبے کے سخت خلاف ہیں۔ ان میں سب سے قابل ذکر طاقتور مذہبی اور سیاسی رہنما مقتدی صدر ہیں جو مرحوم آیت اللہ صادق الصور کے صاحبزادے ہیں۔ ایرانی غلبے کو روکنے کیلئے مقتدی صدر نے عراقی کرد جماعتوں سے بھی اتحاد کیا ہے۔ یہاں سفارتی پہلو یہ ہے کہ اس کشمکش کی نوعیت فرقہ وارانہ نہیں، عربی اور غیر عربی یعنی ایرانی ہے۔ کرد جو ایک تہائی عراق پر اپنی تقریباً مکمل آزاد ریاست بنائے ہوئے ہیں اور عراق کو انہوں نے عملاً کنفیڈریشن کی شکل دے دی ہے، عراقی حکومت اور پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں۔ 
تازہ حملے سے ایرانی غلبے کی مخالف قوتوں کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں اور حملے کے بعد ایران کو پریشان کرنے والے تین واقعات ہوئے ہیں۔ سرفہرست عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السعودان کا بیان ہے جس میں انہوں نے ’’ایرانی جارحیت‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ ایران سے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ایرانی حملے میں ایک کرد خاندان بچوں سمیت مارا گیا۔ یہ خطرناک واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا۔ اس کے بعد عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے کہا کہ کردستان میں اسرائیل کا کوئی مرکز سرے سے ہے ہی نہیں کہ ایران اسرائیل پر حملہ نہیں کر سکتا لیکن اربیل پر حملہ کر دیا۔ یہ باتیں انہوں نے ایک چینل سی این این کو بتائیں۔ انہوں نے ایرانی حملے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اس کے بعد تیسری پیشرفت یہ ہوئی کہ عراق نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف شکایت درج کرا دی۔ غالباً کیا یقیناً ایران نے اس ردّعمل کا اندازہ نہیں لگایا ہو گا۔ 
_______________
مسلم لیگی سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹی وسٹ سوشل میڈیا پر ایرانی حملے کا جشن منا رہے ہیں۔ انہوں نے اسے باعث شرم قرار دیا۔ 
بات یہیں تک رہے تو ٹھیک ہے۔ اگر حکومت نے ان جشن منانے والوں کو گرفتار کیا تو مسئلہ ہو جائے گا کیونکہ پھر لطیف کھوسہ (بشمول اعتزاز احسن) عدالت پہنچ جائیں گے کہ خوشی منانا تو بنیادی حق ہے، انہیں پکڑ کر بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا ہے۔ 

مزیدخبریں