ارشاد احمد ارشد
پاکستان کو قائم ہوئے 75 برس بیت گئے، اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا، محبت دی، عزت دی، لیکن ہم نے اس کو کیا دیا ہے؟ جس نظریے اور عقیدے پر یہ ملک قائم کیا گیا تھا اس پر گہری اور کاری ضربیں لگائی گئیں، یہاں تک کہ ملک دولخت ہوگیا، زخموں سے چور چور اور لہولہان ہوگیا۔ ہم اور ہمارے سیاستدانوں نے ان سانحات سے کچھ بھی سبق نہ سیکھا، نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ہمارا نظام حکومت، نظام سیاست، نظام تعلیم، میڈیا، ثقافت، معیشت، معاشرت سب کچھ نظریہ پاکستان کے منافی ہے۔ ہم بیگانوں سے کیا شکوہ کریں ہمارے حکمران جن کو اللہ تعالی نے پاکستان کے تخت و تاج کا وارث بنایا انھوں نے پاکستان کے نظریے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان روز بروز مسائل کاشکار ہورہا ہے، ہمارے نوجوان دین اور قیام پاکستان کے مقاصد سے دور ہورہے ہیں، ہمارے نوجوانوں کے پاس ڈگریاں تو ہیں لیکن ان کو صحیح تلفظ کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا بھی نہیں آتا، وہی کلمہ طیبہ جو اسلام اور پاکستان کی بنیادہے۔ یہ نہایت ہی المناک صورتحال ہے جس کا ہم سب کو سامنا ہے۔ ملک اور قوم کو درپیش ان ناگفتہ بہ حالات سے نکالنے، قوم کی تربیت اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے پاکستان مرکزی مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
یوں تو پاکستان میں پہلے سے بہت سی جماعتیں موجود ہیں لیکن یہ جماعتیں ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل و مصائب میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ اس لیے کہ ان کی قیادت مخلص نہیں، یہ جماعتیں عوام کا خون چوستی ہیں جبکہ مرکزی مسلم لیگ پاکستان کی واحد جماعت ہے جو ملک اور قوم کے لیے اپنا خون پیش کرتی ہے۔ یہ جماعت سیاست کو تجارت نہیں عبادت سمجھتی ہے، اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کرتی اور اس بات پر یقین رکھتی ہے:
وطن کے جاں نثار ہیں، وطن کے کام آئیں گے
ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے
پاکستان مرکزی مسلم لیگ کو قائم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تاہم اس جماعت نے خدمت ِ خلق کے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو کوئی دوسری جماعت نہیں دے سکی۔ اس جماعت کا ماضی شاندار، حال تابناک اور مستقبل روشن ہے۔ اس کا منشور مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کا سفر ہے۔ منشور تو ساری جماعتیں ہی تیار کرتی ہیں لیکن ان کے منشور وہ سبز باغ ہیں جن کے ذریعے وہ ووٹرز کو شکار کرتے، سبز باغ دکھاتے اور عوام کو دھوکا دیتے ہیں جبکہ مرکزی مسلم لیگ کا ہر کارکن عمل، عزم، اتحاد، اتفاق کاچلتا پھرتا نمونہ ہے۔
پاکستان مرکزی مسلم لیگ نظریہ پاکستان کی علمبردار، اتحاد ِ امت کی داعی اورمسئلہ کشمیر کو اہل کشمیر کی امنگوں کے مطابق حل کیے جانے پریقین رکھتی ہے۔ پی ایم ایم ایل چاہتی ہے کہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک میں لا الہ الا اللہ کی سیاست کا راج چلے۔ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہونا یا سیٹیں جیتنا پی ایم ایم ایل کاہدف نہیں۔ پی ایم ایم ایل جس تیزی سے شہرت، مقبولیت کی منزلیں طے کررہی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے۔ اب لوٹ مار اور کرپشن کی سیاست کرنے والوں کو اپنا انداز بدلنا ہوگا۔ اب پاکستان میں مستقبل نظریہ پاکستان اور خدمت انسانیت کی سیاست کرنے والوں کا ہے۔ پی ایم ایم ایل پاکستان کے خلاف اندرونی و بیرونی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دے گی، اب نفرتوں کو ختم اور محبتوں کو رواج دیا جائے گا اور نوجوانوں کو پاکستان کے دفاع کے لیے تیار کیا جائے گا۔
اب جبکہ الیکشن کی آمد آمد ہے، سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے پہلوان انتخابی اکھاڑے میں اتار دیے ہیں، پہلوانوں نے لنگوٹ کس لیے ہیں اب ایک دوسرے پر جھپٹنے، داؤ پیچ لگانے، گرانے اور ہرانے کے لیے تیار ہیں۔ 8 فروری 2024ء کے الیکشن پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ انتخابی میدان میں روایتی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، جو جیت کو یقینی بنانے کے لیے باہمی اتحاد بنا یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کررہی ہیں۔ ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس سیاسی جماعت کا پلڑا بھاری ہے۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، تحریک لبیک، تاہم ان میں سے چند ایک جماعتیں ہی ایسی ہیں جنھوں نے پورے پاکستان سے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
ان میں سے ایک پاکستان مرکزی مسلم لیگ بھی ہے جس کے نامزد امیدوار ایک طرف ملک کے بڑے بڑے شہروں سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں تو دوسری طرف سوات، اپر دیر، لوئر دیر، کوہستان، باجوڑ ایجنسی، تھرپارکر، مٹیاری، پنجگور، آواران، کیچ، تربت، گوادر، بیلہ جیسے دور دراز علاقے بھی شامل ہیں۔ پی ایم ایم ایل کے پنجاب کی صوبائی سیٹوں پر 255 اور قومی اسمبلی کی سیٹوں پر 119 امیدوار ہیں۔ سندھ سے صوبائی اسمبلی کے 25 اور قومی اسمبلی کے 74 امیدوار ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا سے صوبائی اسمبلی کے 112 اور قومی اسمبلی کے 38 امیدوار ہیں۔ بلوچستان سے صوبائی امیدوار 6 اور قومی اسمبلی کے 2 امیدوار ہیں۔ اس طرح پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر حصہ لینے والوں کی مجموعی تعداد 532 ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان مرکزی مسلم لیگ بہت کم وقت میں چاروں صوبوں میں یکساں طور پر مقبول ہوچکی ہے شہروں کے ساتھ ساتھ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں اس کا بڑا حلقہ اثر موجود ہے ورنہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ عرصہ دراز سے کام کرنے والی جماعتوں کو دیہی علاقے تو کجا شہروں میں بھی امیدوار نہیں ملتے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے پاکستان مرکزی مسلم لیگ نے 44 امیدوار انتخابی میدان میں اتارے ہیں جن میں قومی اسمبلی کے 14 اور صوبائی اسمبلی کے 40 امیدوار ہیں۔ ان کی ترتیب یہ ہے: لاہور حلقہ این اے 17 سے رانا محمد حسین عامر، این اے 118 سے ملک اعجاز احمد، این اے 119 سے حافظ عبدالرؤف، این اے 120 سے حافظ عمر فاروق گجر، این اے 121 سے رانا شعبان اختر، این اے 122 سے حافظ طلحہ سعید، این اے 123 سے حافظ راشد سندھو، این اے 124 سے امین بیگ، این اے 125 سے رانا طارق جمال، این اے 126 سے عمران لیاقت بھٹی، این اے 127 سے خالد نیک گجر، این اے 128 سے محمد شفیق گجر، این اے 129سے انجینئر محمد حارث ڈار اور حلقہ این اے 130 سے مسعود سندھو ہیں۔
لاہور کے صوبائی حلقوں میں سے حلقہ پی پی 145 میں انجینئر عادل خلیق، پی پی 146 میں زاہد منیر، پی پی 147 سے شیخ صادقت علی، پی پی 148 سے ڈاکٹر مقبول احمد، پی پی 149 سے شائمان بٹ، پی پی 150 سے حافظ عبید اللہ، پی پی 151 سے ملک فاروق علی ایڈووکیٹ، پی پی 152 سے رانا آصف، پی پی 153 سے عمر عبداللہ، پی پی 154 سے فہیم گل ایڈووکیٹ، پی پی 155 سے حافظ عمر عزیز، پی پی 156 سے عبدالرحمن نقوی ایڈووکیٹ، پی پی 157 سے میاں محمد جمیل ایڈووکیٹ، پی پی 158 سے اقبال ایاز، پی پی 159 سے ڈاکٹر محمد یوسف، پی پی 160 سے سردار عبدالغفور ڈوگر، پی پی 161 سے چودھری محمود السلام، پی پی 162 سے خالد نیک گجر، پی پی 163 سے ڈاکٹر محمد عمران، پی پی 164 سے سیٹھ اکرم رحمانی، پی پی 165 سے محمد طارق مسعود، پی پی 166 سے نائلہ خالد، پی پی 167 سے ثاقب جاوید عارفی، پی پی 168 سے چودھری عبدالرزاق، پی پی 169 سے محمد ارسلان چودھری، پی پی 170 سے عابد الرحمن، پی پی 171 سے مرشد ارسلان نوید، پی پی 172 سے عباس اکبر بھٹی، پی پی 173 حافظ محمد راشد، پی پی 174 ناصر محمد گھمن کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ پاکستان مرکزی مسلم لیگ کا پورے ملک میں حمایت یافتہ کوئی امیدوار بھی ایسا نہیں جس پر کرپشن کا یا کوئی دوسرا الزام ہو۔ اس کامطلب یہ ہے کہ پاکستان مرکزی مسلم لیگ نے صحیح معنوں میں قوم کو صادق و امین قیادت فراہم کی ہے۔ اب فیصلہ کرنا قوم کا فرض ہے کہ وہ اپنا مقدر بدلنے، حالات درست کرنے، ملک کو صحیح سمت میں چلانے، مسئلہ کشمیر حل کرنے اور پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے صادق و امین قیادت کو موقع فراہم کرے۔