زرداری صاحب نے مشہد میں زیارتوں پر حاضری دی سینئر وزیر ذوالفقار مرزا ان کے ہمراہ تھے اچھی بات ہے اس سے ذوالفقار مرزا کی روحانیت بحال ہو جائے گی اور کچھ دیر وہ ایم کیو ایم کے غم و غصے سے بھی دور رہیں گے۔ فضا ویسے بھی کچھ بہتر ہو گئی ہے کہ الطاف حسین کے حکم پر تلواریں نیاموں میں چلی گئی ہیں اور ذوالفقار مرزا کو اپنوں اور پرایوں نے وہ کچھ کہا کہ مرزا صاحب آہ بھر کر کہنے لگے ”کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا“ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک مرتبہ پھر قریب آنے کو ہیں ”سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا‘ کیا“ اربوں روپے کا نقصان بھی ایک طرف پندرہ قیمتی جانیں کس کھاتے میں گئیں اور اس سے دو روز قبل 108 لوگوں کا پیوند خاک ہونا کس کے سر جائے گا؟
لوگ سراپا سوال ہیں کہ ذوالفقار مرزا کو یکلخت کیا ہوتا ہے کہ کبھی وہ پاکستان توڑنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی پاکستان کے عظیم بانیوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ معلوم نہیں پڑتا کہ پیپلز پارٹی ایک بندے سے ایک ہی وقت میں گالی دینے اور معافی مانگنے کا کام لے رہی ہے۔ ان پر تو کسی فلمی ایکٹر کا گماں ہوتا ہے وگرنہ عام آدمی ایک ہی سانس میں دو متضاد کیفیتوں کو نبھانے پر قادر نہیں۔
میں سمجھتا ہوں اب کے بار پیپلز پارٹی کا وار خالی ہی نہیں گیا بلکہ اس کی زد میں وہ خود بھی آ گئی ہے کہ انہوں نے ایم کیو ایم کو بھوکے ننگے مہاجروں کا طعنہ دیا جس سے اہل پاکستان کی ہمدردیاں مہاجرین کے لئے جاگ پڑیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ سب پاکستان کی محبت میں چلے آئے تھے اور اہل سندھ نے انصار کی یاد تازہ کر دی تھی۔ ذوالفقار مرزا نے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ سعد کئی احسان گئے .... ایک احسان جتانے سے
پاکستان کی بنیادوں میں سب کا خون شامل ہے۔ میں ہمیشہ مہاجروں کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوں مگر ان کے عاقبت نااندیش رہنماﺅں نے انہیں مظلوم سے ظالم بنانے کی غلطی کرکے سب کے دل افسردہ کر دیئے۔ 12 مئی کا قتل عام اور وکلا کا زندہ جلا ڈالنا ابھی کل کی بات ہے۔ ذوالفقار مرزا کو فائدہ پہنچا کہ زرداری کے ساتھ زیارتوں پر چلے گئے۔
ہم آئے دن امریکہ سے چھٹکارے اور نجات کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر ہمارے پاس اجتماعی طاقت نہیں کہ کم از کم ہم ان کبوتروں کی طرح نعرہ مستانہ نہ لگائیں جو جال سمیت اڈاری بھر گئے تھے۔ فرقہ بندی، لسانی اور نسلی تعصبات تو ایک طرف ہم ذاتی مفادات کے لئے سب کچھ داﺅ پر لگا چکے ہیں۔ دونوں بڑی جماعتیں جو سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں کیا کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کسی بھی عدالتی حکم کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور خود کو بچانے کے لئے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کسی بھی سطح پر جا سکتی ہے۔ وہ کتنے پاکستانیوں کی قاتل ہے کہ ڈرون حملے اسی کی خواہش پر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ن لیگ کے انجم عقیل کے حوالے سے جو قانون شکنی ہوئی ہے سب کے سامنے ہے۔ دیکھئے نواز شریف اس بحران سے کیسے نکلتے ہیں۔ اس وقت جماعت اسلامی ریلیوں اور جلسوں کے ذریعہ امریکہ کی بالادستی کو ختم کرنے پر زور دے رہی ہے۔ انہوں نے نواز شریف کے گرینڈ الائنس کو بھی رد کر دیا ہے کہ نواز شریف نے زرداری کے ہاتھ مضبوط کئے اور وہ ملک کی بربادی میں حصہ دار ٹھہرے۔ ن لیگ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہیں اپنے آپ کو جماعت اسلامی اور عمران خان کے لئے قابل قبول بنا سکے کیونکہ ان کے لئے ایم کیو ایم بھی ایک سراب سے زیادہ نہیں۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ نوجوان نسل کوئی ان ہونی کر دے کہ وہ عمران کے پیچھے ہیں۔ ہمارے رہنماﺅں کو ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ اب تو دشمن بھی یہ مان رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام امریکہ کو کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ امریکہ کے پیش نظر صرف اور صرف ہماری بربادی ہے۔ یہی ایک نقطہ ہے جس پر فیصلہ ہو کر رہے گا۔ خود سوچئے کہ امریکہ نے امداد بند کی تو قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر یہ خوشی زیادہ دیر نہ رہ سکی کیونکہ حکومت امداد کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ پہلی اور آخری بات یہی کہ ہمیں اپنے تعصبات سے نکل کر متحد ہونا ہے اور پھر امریکہ کے شکنجے کو توڑنا ہے۔
لوگ سراپا سوال ہیں کہ ذوالفقار مرزا کو یکلخت کیا ہوتا ہے کہ کبھی وہ پاکستان توڑنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی پاکستان کے عظیم بانیوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ معلوم نہیں پڑتا کہ پیپلز پارٹی ایک بندے سے ایک ہی وقت میں گالی دینے اور معافی مانگنے کا کام لے رہی ہے۔ ان پر تو کسی فلمی ایکٹر کا گماں ہوتا ہے وگرنہ عام آدمی ایک ہی سانس میں دو متضاد کیفیتوں کو نبھانے پر قادر نہیں۔
میں سمجھتا ہوں اب کے بار پیپلز پارٹی کا وار خالی ہی نہیں گیا بلکہ اس کی زد میں وہ خود بھی آ گئی ہے کہ انہوں نے ایم کیو ایم کو بھوکے ننگے مہاجروں کا طعنہ دیا جس سے اہل پاکستان کی ہمدردیاں مہاجرین کے لئے جاگ پڑیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ سب پاکستان کی محبت میں چلے آئے تھے اور اہل سندھ نے انصار کی یاد تازہ کر دی تھی۔ ذوالفقار مرزا نے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ سعد کئی احسان گئے .... ایک احسان جتانے سے
پاکستان کی بنیادوں میں سب کا خون شامل ہے۔ میں ہمیشہ مہاجروں کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوں مگر ان کے عاقبت نااندیش رہنماﺅں نے انہیں مظلوم سے ظالم بنانے کی غلطی کرکے سب کے دل افسردہ کر دیئے۔ 12 مئی کا قتل عام اور وکلا کا زندہ جلا ڈالنا ابھی کل کی بات ہے۔ ذوالفقار مرزا کو فائدہ پہنچا کہ زرداری کے ساتھ زیارتوں پر چلے گئے۔
ہم آئے دن امریکہ سے چھٹکارے اور نجات کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر ہمارے پاس اجتماعی طاقت نہیں کہ کم از کم ہم ان کبوتروں کی طرح نعرہ مستانہ نہ لگائیں جو جال سمیت اڈاری بھر گئے تھے۔ فرقہ بندی، لسانی اور نسلی تعصبات تو ایک طرف ہم ذاتی مفادات کے لئے سب کچھ داﺅ پر لگا چکے ہیں۔ دونوں بڑی جماعتیں جو سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں کیا کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کسی بھی عدالتی حکم کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور خود کو بچانے کے لئے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کسی بھی سطح پر جا سکتی ہے۔ وہ کتنے پاکستانیوں کی قاتل ہے کہ ڈرون حملے اسی کی خواہش پر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ن لیگ کے انجم عقیل کے حوالے سے جو قانون شکنی ہوئی ہے سب کے سامنے ہے۔ دیکھئے نواز شریف اس بحران سے کیسے نکلتے ہیں۔ اس وقت جماعت اسلامی ریلیوں اور جلسوں کے ذریعہ امریکہ کی بالادستی کو ختم کرنے پر زور دے رہی ہے۔ انہوں نے نواز شریف کے گرینڈ الائنس کو بھی رد کر دیا ہے کہ نواز شریف نے زرداری کے ہاتھ مضبوط کئے اور وہ ملک کی بربادی میں حصہ دار ٹھہرے۔ ن لیگ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہیں اپنے آپ کو جماعت اسلامی اور عمران خان کے لئے قابل قبول بنا سکے کیونکہ ان کے لئے ایم کیو ایم بھی ایک سراب سے زیادہ نہیں۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ نوجوان نسل کوئی ان ہونی کر دے کہ وہ عمران کے پیچھے ہیں۔ ہمارے رہنماﺅں کو ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ اب تو دشمن بھی یہ مان رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام امریکہ کو کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ امریکہ کے پیش نظر صرف اور صرف ہماری بربادی ہے۔ یہی ایک نقطہ ہے جس پر فیصلہ ہو کر رہے گا۔ خود سوچئے کہ امریکہ نے امداد بند کی تو قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر یہ خوشی زیادہ دیر نہ رہ سکی کیونکہ حکومت امداد کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ پہلی اور آخری بات یہی کہ ہمیں اپنے تعصبات سے نکل کر متحد ہونا ہے اور پھر امریکہ کے شکنجے کو توڑنا ہے۔