”یتیم سکول“ ۔۔۔۔!


ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 41 فیصد لڑکیاں بنیادی تعلیم مکمل نہیں کر پاتی ہیں۔ پاکستان میں خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ اس ملک میں لڑکوں کی شرح خواندگی 69 فیصد اور لڑکیوں کی 45 فیصد ہے جبکہ ملک میں قائم تقریباً ڈیڑھ لاکھ پرائمری سکولوں میں سے 45 فیصد لڑکوں اور 31 فیصد لڑکیوں کے لئے ہیں۔ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی توجہ اس صنفی فرق کو ختم کرنے اور تعلیم کے فروغ پر مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں لڑکیوں کے لئے اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کا امکان 50 فیصد ہے۔ صوبہ پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ تو کر لیا گیا مگر یہ نہیں دیکھا گیا کہ صوبوں میں یہ ذمہ داری نبھانے کی استعداد ہے یا نہیں۔ پاکستان میں سرکاری درسگاہوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے بالخصوص دیہاتوں کے سکولوں میں مویشی باندھے جاتے ہیں۔ کھیلوں کا میدان بنا دیا جاتا ہے۔ صوبہ سرحد میں تو سکولوں کو بم سے اڑانے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ شادی بیاہ جیسی تقریبات کی جاتی ہیں۔ سکول کی زمین اگر ناہموار ہو تو موسم برسات میں تالاب کا کام دیتے ہیں۔ گندے پانی پر ڈینگی اور مینڈک موج میلے کرتے ہیں۔ سرکار کے کاغذوں میں انہیں سکول کہا جاتا ہے مگر وہاں نہ تو سکول ہوتا ہے اور نہ ٹیچرز اور فرنیچر کا مناسب بندوبست ہوتا ہے۔ گوکہ میاں شہباز شریف کی حکومت نے تعلیم میں اہم اقدام اٹھائے ہیں مگر دیہی علاقوں میں سرکاری سکولوںکے حالات جوں کے توں ہیں۔ عمارت ہے تو فرنیچر نہیں، کرسیاں ہیں تو میز نہیں اور نہ ہی کوالیفائڈ ٹیچرز موجود ہیں۔ میں نے پاکستان حالیہ وزٹ کے دوران پنجاب کے دیہی علاقوں میں چند سکولوں کا سروے کیا تو یقین مانئے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ میرے کانوں میں میری بیٹی کے جملے گونجنے لگے ”امی غریب کا بچہ صرف اس لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے کہ اس کا باپ ڈاکٹر نہیں۔ اللہ نے سب کو ذہین اور باصلاحیت بنایا ہے، یہ ہم لوگ ہیں جو بچوں کو ماحول‘ مواقع اور سہولیات سے محروم کر دیتے ہیں۔ وہ سہولیات مہیا نہیں کرتے جن کو بروئے کار لاکر بچے اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو منوا سکیں۔ میں اپنے گاﺅں میں ایک ایسا سکول قائم کرنا چاہتی ہوں، جس میں غریب کے بچے کو وہی تعلیم میسر ہو جو خوشحال خاندانوں کے بچے حاصل کرتے ہیں۔ غریب سٹوڈنٹ بھی پروفیشنل ڈگری حاصل کریں۔ ان سٹوڈنٹس کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے انہیں مالی قرض دیا جائے۔ میں غریب کے بچے کو اس کی منزل تک پہنچانا چاہتی ہوں“۔ میری بیٹی روانی میں اپنے دل کی باتیں کرتی رہی اور میرا دل روتا رہا۔ میری آنکھوں سے وہی برسات جاری تھی جو آج سرکاری سکولوں کا حال دیکھ کر جاری ہے۔ بیٹی نے اپنے باپ سے کہا ”پاپا مجھے اپنے گاﺅں میں تھوڑی سی زمین مل سکتی ہے تاکہ میں اپنا خواب پورا کر سکوں؟ اس کے والد نے کہا زمین تو مل سکتی ہے مگر بیٹی پاکستان میں ایک لڑکی کے لئے اس مشن پر کام کرنا آسان نہیں۔ وہاں کا ماحول اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی وہاں کا نظام مددگار ہے۔ آپ کو مایوسی ہو گی مگر ہم اس مشن پر ضرور غور کریں گے“۔ مجھے وہ گھڑی آج بھی یاد ہے جب بیٹی نے باپ کا جواب سن کر گردن جھکا دی اور اداس چہرہ لئے کمرے میں چلی گئی۔ ہم نے زمینی حقائق پر بات کی جبکہ بیٹی نے اس زمین کی بات کی جس کے حقائق نہایت تکلیف دہ ہیں۔ تعلیم کے بغیر پاکستان معذور ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کی جانب بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ خوشحال گھرانوں کی لڑکیاں سٹیٹس یا اچھے رشتے کے لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں جبکہ غریب کی لڑکی ملازمت کے لئے ڈگری حاصل کرتی ہے تاکہ اپنے خاندان کا پیٹ پال سکے۔ اپنے بچوں کو جہالت اور غربت کی لعنت سے بچا سکے۔ مومنہ بیٹی نے ہمیں وہ راستہ دکھایا جو قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ہماری زندگی مشن کے لئے وقف ہو چکی ہے۔ ”مومنہ چیمہ فاﺅنڈیشن“ نے فیصلہ کیا ہے کہ دیہی علاقوں کے سرکاری سکولوں کو اڈاپٹ کرکے ان کو معیاری بنائے۔ سرکاری سکولوں کو اڈاپٹ کرنے کے لئے سرکار کی اجازت اور تعاون کی ضرورت ہے لہذا پنجاب سرکار سے ملاقات کی۔ میاں شہباز شریف کے ساتھ اس موضوع پر تفصیل سے بات ہوئی۔ اپنی بیٹی کی خواہش کا اظہار کیا‘ جس کا بنیادی مقصد علاقے کے غریب بچوں کو معیاری تعلیم مہیا کرنا ہے۔ اسلام کا ایک اصول ہے کہ نیک کام کا آغاز پہلے اپنے گھر سے کرو۔ مومنہ بیٹی کی خواہش کے مطابق اس کے آبائی گاﺅں ”دادا والی، تحصیل وزیر آباد، ضلع گوجرانوالہ میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول“ کو اڈاپٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گاﺅں میں ہائی سکول کی عمارت تو قائم ہے مگر نہ کوالیفائڈ ٹیچرز ہیں اور نہ ہی مکمل فرنیچر ہے۔ سکول کو معیاری بنانے کے لئے سب سے پہلا مرحلہ Authorised Teaching Staff مہیا کرنا ہے جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سائنس ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے نویں جماعت کی طالبات کے لئے سائنس کی کلاسز ختم کر دی گئی ہیں۔ سکول کو حال ہی میں مڈل سے میٹرک کیا گیا ہے لیکن فرنیچر ناکافی ہے۔ آئی ٹی لیب اور آئی ٹی ٹیچر بھی موجود نہیں۔ تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے لئے کوالیفائڈ ایڈیشنل ٹیچنگ سٹاف‘ ٹیچنگ سٹاف کی تربیت اور لائبریری کی اشد ضرورت ہے۔ جونہی سرکار سکول ہمارے حوالے کرے گی، ہم گھر بیٹھی نویں جماعت کی طالبات کو سائنس کی تعلیم دلا سکیں گے لیکن سرکار نے اگر کاہلی کا ثبوت دیا تو غریب لڑکیوں کا یہ سال ضائع ہونے کا امکان ہے۔ مذکورہ ہائی سکول میں چار سو کے قریب لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ اگر ہم سب مل کر صرف ایک گاﺅں کی چار سو بچیوں کا مستقبل محفوظ کر لیں تو سمجھ لیں ہم نے پاکستان کی چار سوماﺅں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر دیا۔ ان چار سو ماﺅں کی کوکھ سے جنم لینے والے بچے ہی اصل پاکستان ہے۔

ای پیپر دی نیشن